افغان مہاجرین واپسی کی محتاط پالیسی
افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل پر بین الاقوامی سطح پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے آیا یہ عمل عالمی پروٹوکولز اور انسانی حقوق کے تقاضوں کے مطابق ہے یا نہیں۔ تاہم، اس صورت حال کو اگر پاکستان، اور خاص طور پر خیبر پختونخوا کے تناظر میں دیکھا جائے، تو حقیقت کی سنگینی مزید واضح ہو جاتی ہے۔ یہی وہ صوبہ ہے جس نے گزشتہ چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کا سب سے زیادہ بوجھ نہ صرف برداشت کیا، بلکہ ان کے لیے پناہ، روزگار، تعلیم، صحت اور شناخت کا احساس بھی فراہم کیا۔1979 میں افغان جنگ کے آغاز سے لے کر اگست 2021 میں غیر ملکی افواج کے انخلا تک، خیبر پختونخوا نے افغانستان سے ہجرت کرنے والے لاکھوں افراد کو اپنے دامن میں جگہ دی۔ اب وہ نسل، جو پاکستان میں پیدا ہوئی، یہاں پلی بڑھی، اور جس نے اسی سرزمین کو اپنا وطن جانا، اسے اچانک ایک ایسے ملک واپس بھیجا جا رہا ہے جو دہائیوں سے جنگ، عدم استحکام اور سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق، نومبر 2023 میں "اللیگل فارنرز ریپیٹریئیش پروگرام یعنی غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے” (IFRP) کے آغاز کے بعد جنوری 2025 تک 7 لاکھ 84 ہزار 954 افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔یہ درست ہے کہ پاکستان نے اپنی ہمسائیگی اور اخوت کا فرض ادا کر دیا ہے، اور اب اسے اپنے شہریوں کی سلامتی اور ترقی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ واپسی کا یہ عمل کئی چیلنجز اور انسانی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ بے شمار مہاجرین کے پاس نہ کوئی قانونی دستاویزات ہیں، نہ افغانستان میں ٹھکانہ یا........
© Mashriq
