معاہدہ سندھ طاس امن کا ستون یا آبی بم
انڈس واٹر ٹر یٹی کو قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک دو طرفہ معاہدہ نظر آ تا ہے جس میں کسی بھی مسئلے پر اس کے حل کی کنجیاں اس کے فریقوں انڈیا اور پاکستان کے پاس ہیں ۔ ہندوستان کی جانب سے 30 اگست 2024 کو اس معاہدے کی آرٹیکل 12 سب سیکشن 3 کے تحت گفت و شنید کا جو نوٹس پاکستان کو ملا ہے اس میں دو طرفہ بات چیت کا عنصر غالب ہے یعنی دیگر لفظوں میں ہندوستان کسی بھی صورت رسمی یا غیر رسمی طور پر کوئی کردار کسی تیسرے فریق یا ورلڈ بینک کو نہیں دینا چاہتا۔ ہندوستان کی جانب سے آبادی کے مسائل، ماحولیات سے متعلق معاملات، توانائی کی ضروریات اور معاہدے کے عمل درآمد میں مبینہ طور پر سرحدوں کے آر پار پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خطرات ایسے نکات ہیں جو بنیادی نوعیت کے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ہی ہے ؟ اگر اس معاہدے کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ہندوستان کے آئین میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ہندوستان مغربی دریائوں سندھ، جہلم اور چناب کے پانی کو مکمل طور پر اپنے استعمال میں لانا چاہتا ہے کیونکہ کشمیر کی اس قانونی پوزیشن میں جو ہندوستان کے آئین کے اندر 1960 میں موجود تھی اور جو اب2025 میں ہے، ان کے لحاظ سے آج کا یہ کشمیر ہندوستان کے وفاق کا حصہ ہے۔ معاہدات کو ختم یا تبدیل کرنے کے لیے سیاسی یا معاشی تبدیلیاں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی نظر میں کوئی مضبوط دلیل نہیں رکھتی ہیں۔ ہاں آبادی میں اضافہ اور پانی کی ضروریات میں تبدیلی ایسا پہلو ہے جس پر بات کی جا سکتی ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے........
© Mashriq
