menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

  اک دیا جل رہا تھا حوالات میں 

13 0
12.09.2025

جناب خورشید رضوی کا ایک مشہور شعر ہے:

وہ جو ایک مجھ میں اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی

یہی ریزہ ریزہ سے کام تھے مجھے کھا گئے

بہت سے تخلیق کاروں کے ساتھ بھی یہی مسئلہ رہا ہے کہ وہ دیگر وقتی نوعیت کے کاموں میں پڑ کر اپنی تخلیقی زندگی کو زیادہ وقت نہیں دے سکے۔ اگرچہ ان کے نام کو شہرت بہت ملی تاہم بطور تخلیق کار ان کی شہرت کہیں نیچے دبی رہی اوریا مقبول جان بھی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں، ان کے متعدد حوالے ہیں اور وہ ان کی وجہ سے بہت جانے جاتے ہیں، لیکن تخلیق کار کی حیثیت سے ان کا حوالہ اس طرح کا نہیں جیسا کہ ہونا چاہیے۔قلم فاؤنڈیشن لاہور کے روح رواں علامہ عبدالستار عاصم کی وساطت سے جب مجھے اوریا مقبول جان کا شعری مجموعہ ”اک دیا جل رہا تھا حوالات میں“ موصول ہوا تو مجھے یوں لگا جیسے میں نے ایک نئے اوریا مقبول جان کو دریافت کیا ہے۔ ایک شاعر اور تخلیق کار اوریا مقبول جان،جس کے اندر تخلیق کے موتی پھوٹ رہے ہیں اورجو شاعری کے افق پر ایک تابندہ ستارے کی صورت چمک رہا ہے۔ اس مجموعے کے عنوان سے لگتا ہے کہ یہ ایام اسیری کی شاعری ہے، جبکہ ایسا ہے نہیں۔ اگرچہ اس میں قید کے دوران تخلیق ہونے والی شاعری بھی شامل ہے تاہم یہ اوریامقبول جان کی ایک مجموعی تاثر دینے والی شاعری کا مجموعہ ہے، جس میں حمد، نعت، منقبت، نظم اور غزل شامل ہیں۔ اوریا مقبول جان کی زندگی چونکہ متنوع ہے اس لئے ان کے چاہنے والے بھی بہت ہیں اور ان کے نظریات سے اختلاف کرنے والے بھی بہت۔ یہ........

© Daily Pakistan (Urdu)