غربت کارڈ،کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں
میری غلطی تھی کہ میں نواب بن کر گاڑی میں بیٹھا رہا اور ایم ڈی اے چوک ملتان پر کھڑے کیلے بیچنے والے سے دو درجن کیلے دینے کو کہا۔عموماً میں گاڑی سے اُتر کر یا پھر سائیکل پر جا کے خود چھان پھٹک کر کے خریداری کرتا ہوں، کیونکہ اس معاملے میں ذرا سی غفلت کام بگاڑ دیتی ہے۔ خیر اُس نے دو درجن کیلے شاپر میں ڈال کر دیئے اور شاپر بھی نیلے رنگ کا تھا۔میں نے بس اچٹتی سی نظر کیلوں پر ڈالی،اُسے کہا ”اچھے دیتے نے ناں“ اُس نے فٹ کہا،باؤ جی وی آئی پی اور ہاتھ کا اشارہ بھی کیا۔میں نے اُسے 300روپے دیئے، کیونکہ وہ دوسروں کے مقابلے میں 30روپے درجن مہنگے بیچ رہا تھا۔ڈیڑھ سو روپے درجن آج کل بہت اونچا ریٹ ہے،اتنے میں میری ایک کال آ گئی۔میں فون سننے لگا اور کال بند ہوئی تو گاڑی سٹارٹ کر کے کینٹ کی طرف محو ِ سفر ہو گیا۔میں سیف سٹیز پنجاب کے ملتان دفتر سے آیا تھا، اس لئے میرے ذہن میں راستے میں دیکھتا آیا کہ کتنے موٹر سائیکل سوار بغیر ہیلمٹ کے آ رہے ہیں، کتنے کار سواروں نے سیٹ بیلٹ باندھی ہوئی ہے۔کون دورانِ ڈرائیونگ فون سن رہا ہے۔کون تیز رفتاری سے جا رہا ہے۔پھر میں کھمبوں پر بھی نظر ڈالتا گیا کہ کہاں کہاں پنجاب سیف سٹیز کے کیمرے لگے ہیں۔ اسی ادھیڑ بن میں امپیریل سینما کی چیک پوسٹ کراس کرتے ہوئے قاسم بیلہ اپنے گھر پہنچ گیا۔کیلوں اور انگور کے شاپر بیگم کو پکڑا کر ابھی میں کپڑے چینج کرنے کے لئے مڑا ہی تھا کہ بیگم کیلوں کا شاپر اُٹھا لائی۔”آپ نے کیلے دیکھ کر نہیں لئے تھے“ جملے میں طنز تھا، ”کیوں کیا ہوا“؟........
© Daily Pakistan (Urdu)
