الطاف حسن قریشی
ایک مدت سے تاریخ پیدائش غیرمعمولی اہمیت اختیار کر چکی ہے، کیونکہ قسمت کا حال بتانے والے نجومی سب سے پہلے تاریخ پیدائش معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ستارہ شناس محترمہ اپنی گفتگو میں اِس واقعے کا ذکر کرتی ہیں کہ میرے بااعتماد دَوستوں نے لیفٹیننٹ جنرل سیّد عاصم منیر کی تاریخ پیدائش فراہم کی تھی۔ مَیں نے اُس کی بنیاد پہ اُن کا زائچہ بنایا اور جب اُن سے ملاقات ہوئی، تو مَیں نے اُنھیں آرمی چیف بننے کی خوشخبری دی۔ اُنھوں نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے ایک دو ماہ پہلے مَیں ریٹائرڈ ہو جاؤں گا، اِس لیے مجھے تمہاری پیشین گوئی درست معلوم نہیں ہوتی۔ مجھے اپنے زائچے کی صحت پر پورا یقین تھا، اِس لیے مَیں نے اُنھیں دوسری بار مبارکباد پیش کی اور اَللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ آرمی چیف کے منصب پر فائز ہوئے۔ مجھے سامعہ خاں کی مستقبل بینی پر بہت رشک آیا۔ اُن کے ہاں بلا کا اعتماد بھی ہے اور غضب کا انکسار بھی۔ وہ کہتی ہیں کہ علمِ غیب تو اَللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ہم جو ستاروں کی چالوں کا علم حاصل کرتے ہیں، وہ نہایت محدود ہوتا ہے، البتہ اگر اُس محدود علم کو دانشمندی سے استعمال کیا جائے، تو آنے والے حالات کا ادراک حاصل ہو جاتا ہے۔
انگریزوں کے عہد میں تاریخ پیدائش کے فوری اندراج کا سرے سے کوئی بندوبست نہیں تھا، اِس لیے ہمارے عظیم قائد کی تاریخ پیدائش کے بارے میں محققین ایک سے زائد تاریخ ِپیدائش دریافت کر چکے جن میں برسوں کا اختلاف ہے۔ مَیں جو قوم کا ایک ادنیٰ خادم ہوں، میری تاریخ پیدائش کے ساتھ بھی ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ ۱۹۴۷ء کے اوائل میں ہمیں میٹرک امتحان کا فارم پُر کرنا تھا۔ میرے ایک مشفق استاد حافظ نعمت اللہ نے مجھ سے کہا کہ تم اپنے کوائف جمع کر لو، تو مَیں تمہارا فارم پُر کر دوں گا۔ مَیں نے اپنا نام الطاف حسن راہبر لکھا اور جائے پیدائش کے خانے میں ہابڑی درج کیا۔ تاریخ پیدائش فروری ۱۹۳۱ء لکھی جو میرے بڑے بھائی اعجازحسن کی تاریخ پیدائش کی بنیاد پر نکالی گئی تھی۔ استاد محترم شاید میرا لکھا........
© Daily Jang
