menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

عرفان صدیقی

19 12
05.03.2025

بے برگ وثمر خطوط نویسی سے اُکتا کر، عمران خان نے معروف امریکی جریدے ’’ٹائم‘‘ کیلئے ایک مضمون تحریر کیا ہے۔ یہ مضمون دراصل کس نے لکھا؟ کیسے ’’ٹائم‘‘ تک پہنچا؟ تحقیق وتفتیش کے کن مراحل سے گزر کر ’’ٹائم‘‘ اِس نتیجے پر پہنچا کہ یہ واقعی اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی تحریر ہے؟ یہ سب سوالات اہم سہی لیکن سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ مضمون عمران خان کے نام سے شائع ہوا اور انہوں نے اسے اپنے مضمون کے طور پر قبول کرلیا۔ اندھی عقیدت اور سیاسی عصبیت کو ایک طرف رکھتے ہوئے، محض ایک کھرے پاکستانی کی حیثیت سے یہ مضمون پڑھا جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا ایک سیاسی راہنما، زخم خوردہ ہی سہی، دنیا کے سامنے اپنے وطن کا کیا نقشہ پیش کررہا ہے؟ ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاست، انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ، قومی سلامتی کے اداروں اور مقتدر شخصیات کی پشت پر پیہم تازیانے برسانے اور اُنہیں اپنی حدود وقیود (Boundaries) میں رہنے کا درس دینے والے عمران خان، چاہتے کیا ہیں؟ یہ کڑوا گھونٹ اُنکے حلق میں کیوں اٹک کر رہ گیا ہے کہ اپریل 2022ء میں اُسی ایوان نے اُن پر عدمِ اعتماد کردیا جس نے اگست 2018ء میں اُنکی تاج پوشی کی تھی۔ شاید اُنکے دل میں تیرِ نیم کَش کی دَرد اَنگیز خلش کا سبب، شکستِ خواب کا یہ نوحہ ہے کہ جنرل باجوہ نے اُنکے اُس شجرِآرزو پر کلہاڑا چلا دیا، جسے جنرل فیض حمید نے، اپنے نہیں، دوسروں کے خون پسینے سے سینچا تھا۔ وہ ابھی تک انگاروں پر لوٹ رہے ہیں کہ کیوں چشم زدن میں کم وبیش دو عشروں کے اقتدارِ کُلّی کا منصوبہ، ریت کے گھروندے کی طرح بیٹھ گیا۔ تین سال گزر جانے کے بعد بھی اُنکے زخم پر موم نہیں آیا۔ آیا بھی تو انہوں نے بے ہُنر ’’ناخنِ تدبیر‘‘ سے کھرچ ڈالا۔ ’ٹائم‘ کے مضمون میں ’’بنیادی انسانی حقوق کی پامالی‘‘ اور ’’جمہوریت کُشی‘‘ کی مکروہات میں لت پت پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش میں عمران خان نے بعض بے بنیاد اور خلافِ حقیقت ’’انکشافات‘‘ بھی کئے ہیں۔ پی۔ٹی۔آئی کے راہنمائوں کو حکومت سے مذاکرات کی اجازت دینے کی داستان بیان کرتے ہوئے وہ اپنی فراخ قلبی کا تذکرہ کرتے اور بتاتے ہیں کہ جواب میں اُنہیں اڈیالہ جیل سے نکال کر ہائوس اریسٹ کی پیشکش کی گئی جو اُنہوں نے مسترد کردی۔ یہ سراسر بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے۔........

© Daily Jang