نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
یکے بعد دیگرے پیش آنے والے واقعات کے بعد اب اس حوالے سے دو رائے نہیںکہ پاکستانی معاشرے میں بھی معاشرتی اور خاندانی نظام کا ڈھانچہ بکھر چکا ہے پہلے ایک معروف اداکارہ اور پھر ایک ماڈل گرل کی تنہائی میں اس طرح کی موتجس کا علم یا تو مردہ جسم کے گلنے سڑنے کی بو سے ہوا یا پھر کرایہ داری کے تنازعہ پر عدالتی اہلکار فلیٹ کا تالا توڑنے پہنچا تو معلوم ہوا کہ لاش نو دس ماہ پرانی تھی ایک کے بچوں نے نہ پوچھا اور نہ ہی اس کے وسیع تعلقات پر مبنی سوسائٹی میں جب وہ پردہ سیمیں سے ذرا ادھر ادھر ہوئی کسی نے زحمت کی کہ وہ کیسی ہیں ظاہر ہے ان کے رشتہ دار عزیز و اقارب بھی ہوں گے مگر کسی کو ان کی پرواہ نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کو ان کی پرواہ ہو گی تبھی تو موت و بیماری کا علم ہو سکا اور نہ ہی کسی نے اتنی خبر گیری کی کہ سانسیں چل رہی ہیں یا اکھڑ چکی ہیں کم از کم بچوں کو ہی احساس ہونا چاہئے تھا خیر میں کبھی کبھی روز کے صبح بخیر کے پیغامات سے اکتا جاتی ہوں پہلے میں سوچتی تھی کہ لوگوں کے پاس فالتو وقت بہت ہے مگر اب احساس ہوتا ہے کہ احباب ٹھیک اور میں غلط تھی کم از کم اس سے اس امر کا احساس ہوتا ہے کہ خیریت بھی ہے اور ابھی یادوں میں ہوں کسی نے بھلایا نہیں پہلے اگر صبح بخیر ایک رسم یا پھر تعلقات کی یاد دہانی تھی تو اب اسے ضروری جانا چاہئے کہ کم از کم بقید حیات ہونے کی رسید تو مل جاتی ہے روزانہ ہو تو اچھا ہے کم از کم ہفتہ وار تعطیل میں تو سلام دعا کا فریضہ نبھایا جائے کہ رشتہ اور دوستی میں اب یہ ضروری ہو گیا ہے بطور مسلمان........
© Mashriq
