menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

’گھر، خاندان اور زندگی بنائی— اب انجان سرزمین جانا ہے‘

7 0
yesterday

کراچی کی چلملاتی دھوپ میں قاری زین الدین اور ان کی بیٹی امین ہاؤس کے باہر صبر سے کھڑے ہیں جو ایک ہوسٹل سے حراستی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے، سلطان آباد کی گلیوں میں یہ دونوں باپ بیٹی تقریباً ایک درجن پولیس اہلکاروں کے درمیان موجود ہیں جو عمارت کی حفاظت کر رہے ہیں، جہاں حالیہ دنوں میں شہر کے مختلف علاقوں سے سیکڑوں افغان لائے گئے ہیں۔

باپ، جو ایک چھوٹے قد کا آدمی ہے، شلوار قمیض اور سفید ٹوپی میں ملبوس ہے، اپنے ہاتھ میں ایک فائل مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے۔ لڑکی، جس کا چہرہ نقاب میں چھپا ہے، ایک بھاری بیگ اٹھائے ہوئے ہے، جس کا وزن اس کی 18 سالہ نازک کمر کو بوجھل کررہا ہے ۔ دونوں پسینے میں شرابور ہیں لیکن خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب علاقے کا اسٹیشن ہاؤس آفیسر نمودار ہوتا ہے، تو وہ فوراً اس کے پاس دوڑتے ہیں، پھر انہیں مزید انتظار کرنے کو کہا جاتا ہے۔

زین الدین، جو ایک افغان پناہ گزین ہیں، 1996 میں پاکستان آ گئے تھے جب وہ کمسن تھے۔ ابتدا میں خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں مقیم تھے پھر کراچی منتقل ہو گئے، جہاں ان کی شادی ہو گئی۔ بی بی رضیہ، جو ان کے ساتھ ہیں، کراچی میں پیدا ہوئیں اور حال ہی میں ان کی یہاں شادی ہوئی لیکن عید کے تیسرے دن ان کے شوہر کو بنارس، اورنگی ٹاؤن کی ایک نان کی دکان سے گرفتار کر لیا گیا۔

زین الدین نے بتایا کہ ان کے داماد پی او آر (پروف آف ریذیڈینسی) کارڈ گم کر بیٹھے تھے، اس لیے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ اس دن زین الدین نے علاقے کے پولیس اسٹیشن کا کئی بار دورہ کیا، پھر انہیں بتایا گیا کہ کمال الدین کو امین ہاؤس بھیج دیا گیا ہے۔ وہ فائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’میں یہاں تمام دستاویزات کے ساتھ آیا ہوں، اس میں رضیہ بی بی کا پی او آر کارڈ، نکاح نامہ، پیدائش کا سرٹیفکیٹ اور ویکسینیشن کارڈز موجود ہیں‘۔

’میری ایک درخواست ہے، یا تو میرے داماد کو رہا کریں یا میری بیٹی کو بھی لے جائیں تاکہ دونوں افغانستان ساتھ جاسکیں، یہاں وہ اکیلی کیا کرے گی؟‘ زین الدین رو پڑتے ہیں۔ ’میں پورا دن انتظار کروں گا، لیکن جب تک مجھے کوئی حتمی جواب نہیں ملتا، میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔‘ اور اس طرح زین الدین امین ہاؤس کے باہر کھڑے رہتے ہیں جب تک کہ ایک پولیس والا انہیں بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں دیتا۔

قاری زین الدین اور ان کی بیٹی امین ہاؤس کے باہر انتظار کررہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں سیکڑوں افغان طورخم اور چمن سرحد سے افغانستان واپس گئے ہیں کیونکہ حکومت نے 31 مارچ کو اپنے دوسرے جلاوطن پروگرام کا آغاز کیا، جس میں افغان سٹیزن کارڈز رکھنے والوں کو نشانہ بنایا گیا جو ایک شناختی دستاویز ہے جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومت نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی۔

یہ مہم ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کا آغاز حکومت نے 2023 میں تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کے لیے کیا تھا۔ پہلے مرحلے میں، تمام غیر دستاویزی افغانوں کو جلاوطن کیا گیا تھا، جو شناختی ثبوت نہیں رکھتے تھے۔

کراچی میں، پچھلے پانچ دنوں میں کم از کم 307 افغان پناہ گزینوں کو، خاص طور پر وہ جو افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھتے ہیں، واپس بھیج دیا گیا ہے، جو کہ ایک عارضی پولیس بیان کے مطابق ڈان ڈاٹ کام کے پاس موجود ہے۔ اس کے علاوہ طور خم سرحد کے ذریعے یکم اپریل سے11 ہزار 272 افغانوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔

2017 میں، پاکستان نے افغان حکومت کے ساتھ مل کر افغان سٹیزن کارڈز متعارف کرائے تھے، جو ان افراد کو جاری کیے جاتے تھے جو کسی وجہ سے پی او آر کارڈز حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ اے سی سی رکھنے والوں کی تعداد تقریباً 8 لاکھ 40 ہزار ہے۔

وہ افغان جو سرحد عبور کر گئے، نہ صرف اپنے گھروں اور جائیداد کو چھوڑ آئے بلکہ اپنے خاندان کے افراد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ دوسری طرف، جو لوگ اس طرف ہیں، وہ مسلسل خوف اور اضطراب کی حالت میں ہیں۔

امین ہاؤس سے ایک گھنٹہ کی دوری پر، افغان بستی کی گلیوں میں خوف واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے۔ جو کراچی کے نواح میں واقع ایک 40 سالہ پرانی آبادکاری ہے۔ کیمپ کی طرف جانے والی سڑک تقریباً سنسان ہے، سوائے ان ٹرکوں کے جو بھرے ہوئے ہیں۔

لیکن اندر، تنگ اور ناہموار گلیوں میں زندگی کی پہلی علامت نظر آتی ہے، نوجوان لڑکے........

© Dawn News TV