’شہرِ کوئٹہ کی خاموشی کو حکمران طبقہ استحکام سمجھ بیٹھا ہے‘
کوئٹہ کی اداسی مزید گہری ہوتی جارہی ہے۔ خوف سے زیادہ، ایک ایسی بھاری خاموشی ہے جو شہر اور اس کے لوگوں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے جبکہ ایک پُراسرار سکوت ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی گرفت سخت کیے جارہا ہے۔ شہر کی سیکیورٹی کے بارے میں تشویش ہر جگہ محسوس کی جا سکتی ہے۔
چیک پوسٹس کی بڑھتی تعداد، سڑکوں کی بندش، وقفے وقفے سے انٹرنیٹ کی معطلی، سیکیورٹی انتباہات کے باعث اسکولز کی بندش، ‘حساس’ علاقوں میں نقل و حرکت پر پابندیاں، سرکاری عمارتوں پر تاروں کا جال، مضبوط حفاظتی انتظامات اور افغان پناہ گزینوں کی واپسی، یہ سب عناصر مل کر کوئٹہ کو بے چین اور کشیدگی سے بھرپور شہر بنا چکے ہیں۔
کوئٹہ کبھی ایسا نہیں تھا۔ ماضی میں بلوچستان میں جو کچھ بھی ہوتا رہا یعنی سیکیورٹی کی صورت حال جیسی بھی رہی، کوئٹہ شہر کا اپنا رنگ ہمیشہ برقرار رہا ہے۔ لوگ شکایت کرتے تھے، نجی اور عوامی سطح پر غصے کا اظہار کرتے تھے، تقدیر سے بحث کرتے تھے لیکن پھر وہ زندگی کی طرف لوٹ آتے تھے۔
گزشتہ ایک سال میں کوئٹہ نے تواتر سے بہت کچھ کھویا ہے۔ اب لوگ احتجاج نہیں کرتے، وہ اپنے گرد بڑھتی پابندیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ وہ اب بس خاموش رہتے ہیں۔ وہ چپ سادھے زندگی گزارتے ہیں اور یہی خاموشی شہر کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
اگر احمد فراز زندہ ہوتے تو شاید وہ اس لمحے کے لیے ایک شہرِ آشوب لکھتے۔ مگر حکومت اس خاموشی میں سکون تلاش کرتی ہے اور وہ اسے غلطی سے استحکام سمجھ بیٹھی ہے۔ آخرکار اعداد و شمار بھی ان کے اسی خیال کے حق میں نظر آتے ہیں۔
کوئٹہ میں رواں ماہ قوم پرست شدت پسندوں کی جانب سے صرف 10 دہشت گرد حملے ہوئے ہیں جوکہ کم شدت کے تھے جن میں 6 افراد زخمی ہوئے۔ تاہم گزشتہ تین ماہ میں صوبے بھر میں قوم پرست شدت پسندوں سے منسوب 52 حملے رپورٹ ہوئے جن میں 49 جانیں لقمہ اجل بنیں۔
تصویر کا تاریک رخ یہ........





















Toi Staff
Gideon Levy
Penny S. Tee
Sabine Sterk
Mark Travers Ph.d
Gilles Touboul
John Nosta
Daniel Orenstein