پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے (9)
علمی و تدریسی صلاحیت کا قائل ہونے کے باوجود سچ تو یہ ہے کہ طاہر یوسف بخاری کی انتظامی خوبیوں کا ادراک اُن کے پرنسپل بننے پر ہوا۔ کچھ نہ کچھ انتظامی مہارت تو ہر کسی میں ہوتی ہے۔ پر شعوری کوشش کے بغیر انسان دوستی میں گندھی ہوئی فیصلہ سازی ایک اور بات ہے۔ مَیں نے اِس سلسلہ وار تحریر کی ابتدا میں طاہر بخاری کو محکمہء تعلیم کا چودھری شجاعت حسین کہا تھا۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کو امکانی حد تک ناراض نہ کرنے کا وصف چودھری شجاعت کو ورثے میں مِلا۔ اُن کے والد ِمحترم سے نظریاتی اختلاف رکھتے ہوئے بھی بزرگوار سے زندگی کی واحد ملاقات مجھ پر جو شخصی تاثر چھوڑ گئی اُس کی جھلک نہ دکھاؤں تو بخاری کی تصویر ادھوری رہ جائے گی۔
خطرناک مکڑی کے کاٹنے سے بزرگ شہری کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی، یہ کون سی قسم ہے اور کہاں پائی جاتی ہے؟ہمارا ٹاکرہ انارکلی کے سرے پر واقع ’نعمت کدہ‘ کے ڈائننگ ہال میں ہوا جہاں کالج مَیس سے نکل کر ایم اے انگلش کے تین طالب علم لنچ کے آرڈر کا انتظار کر رہے تھے۔ اپنے وقت کا یہ مقبول ریستوان میرے خوش خور ہم عصروں کو اب بھی یاد ہو گا۔ ایک تو دیسی گھی میں ترتراتے کھانے، پھر سفید ٹیبل کلاتھ کے اوپر چمکدار فولادی ڈونگے جن کے پیندوں کی گرم بھاپ سالن کو ٹھنڈا نہ ہونے دیتی۔ اچانک ایک لڑکے نے کہا ”اوئے، چودھری ظہور الہی“۔ ساتھ ہی موصوف نے، جو چھ سات آدمیوں کے ہمراہ سیڑھیاں چڑھ رہے تھے، اپنی طرف تیزی سے آتے ہوئے ایک ویٹر کو زور سے پکارا ”نہیں، مَیں خود بات کروں گا۔“ پھر قریب آ کر کہنے لگے ”بیٹا، ہے بڑی زیادتی کہ آپ کھانا کھانے لگے ہیں اور مَیں کہوں کہ یہاں سے اُٹھ جائیں۔۔۔ مگر مجبوری یہ ہے کہ ہم آدمی زیادہ ہیں، چھوٹی میز پہ پورے نہیں آ سکتے۔“
ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟ ہم تینوں یکدم کھڑے ہو گئے اور احترام سے پیشکش کی کہ سر، آپ........
© Daily Pakistan (Urdu)
