menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

  دفعہ 302 کا خوف کیوں ختم ہو گیا؟

21 0
11.06.2025

ایک زمانے میں یہ بات عام تھی کہ دفعہ 302کسی درخت پر بھی لگ جائے تو وہ سوکھ جاتا ہے۔ یہ بات درحقیقت اس بات کا اشارہ تھی کہ کسی کا قتل کرنے والا خود اپنی زندگی میں زندہ لاش بن جاتا ہے۔ اس دفعہ کا اتناخوف ہوتا تھا کسی کی جان لینے کے بارے میں سوچنا بھی کپکپی طاری کر دیتا تھا۔ میں پچھلے کچھ دنوں سے سوچ رہا ہوں کیا اس ملک میں دفعہ 302کا خوف ختم ہو گیا ہے اور اس سوچ کی وجہ ایسے پے در پے واقعات ہیں جن میں مخالفین کو ایسے قتل کیا جا رہا ہے، جیسے وہ انسان نہ ہوں، زمین کے کیڑے ہوں۔ روزانہ خبریں آتی ہیں کہ پیشی پر جاتے ہوئے چار بھائیوں یا چار افراد کو گھات میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے گولیوں سے بھون ڈالا اور فرار ہو گئے۔ کہیں خبر آتی ہے معمولی تکرار پر کسی ماں کا اکلوتا بیٹا مار دیا گیا۔ کہیں بیٹے کے ہاتھوں باپ کے مرنے کی اور کہیں باپ کے ہاتھوں بیٹے کے قتل ہونے کی خبر آ جاتی ہے۔ راہ چلتے معمولی سے ایکسیڈنٹ پر شروع ہونے والے جھگڑے میں اسلحہ نکال کے بندہ بلکہ بندے مار دیئے جاتے ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے جب خیر کی خبر آتی ہو۔ بس یہ لکھا ہوتا پولیس نے دفعہ 302کے تحت مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کر دی ہے۔ ملزموں کی تلاش جاری ہے۔ نہیں صاحب نہیں، یہ معمول کے حالات نہیں، یہاں کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ضرور ہے، کہیں نہ کہیں کوئی ایسا خلاء پیدا ہو گیا ہے، جس نے دفعہ 302جیسی خطرناک ترین فوجداری کارروائی کو بھی بے اثر بنا دیا ہے۔ یہ دفعہ 144کی خلاف ورزی جیسامقدمہ بن گیا ہے، میں ایک ایسے خاندان کو جانتا ہوں جس کے افراد اس لئے قتل در قتل صورت حال کا شکار ہوتے رہے ہیں کہ دفعہ 302کے تحت مقدمے کا سالہا سال تک فیصلہ نہیں ہوتا۔ قانونی موشگافیوں سے فائدہ اٹھا کر ملزمان ضمانت کراکے باہر........

© Daily Pakistan (Urdu)