اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے
قوموں کی زندگی میں کچھ حادثات قدرتی آزمائش کے طور پر آتے ہیں، مگر کچھ آفات ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان اپنی کوتاہیوں اور غفلت سے خود راستہ دیتا ہے اس لئے اسے آفت سے زیادہ اپنی کج فہمی یا جہالت سے تعبیر کیا جانا چاہئے۔ پاکستان میں سیلاب بھی ایسی ہی آفات میں سے ایک ہے جو عرصہ دراز سے اب ایک سالانہ ایونٹ بن گیا ہے۔بھارت کی طرف سے چھوڑے گئے ریلے، برسات کی بارشیں، پہاڑوں سے اترنے والا پانی اوراس کے سبب دریا ؤں کی طغیانی کوئی نئی بات نہیں۔ہر سال ہم ہزاروں گھروں کو ڈوبتا، لاکھوں لوگوں کو بے گھر ہوتا اور کھڑی فصلوں کو تباہ ہوتا دیکھتے ہیں۔اس بار سنا گیا ہے کہ اس کی شدت پچھلے آنیو الے سیلابوں سے کہیں زیادہ ہے۔ٹیکنالوجی کے جدید زمانے میں اس کو کوئی اچانک آفت نہیں کہا جا سکتا ا س لئے ہر بار اس کا ملبہ بھارت پر ڈال کر اپنا دامن صاف نہیں کیا جا سکتا۔ایک طرف ہم بھارت سے پانی کے روکے جانے پر اینٹ سے اینٹ بجا دینے اور جنگ کرنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ہم محض دو لاکھ کیوسک پانی کو سنبھالنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے جو نہایت مضحکہ خیز ہے۔ ہم نے سیلاب کو آفت سے بڑھا کر قومی سانحہ بنا دیا ہے۔
شاداب خان بیٹی کےباپ بن گئےاس بار سب سے زیادہ شور ان مہنگی ترین ہاؤسنگ سوسائٹیز کے حوالے سے اُٹھ رہا ہے، جنہوں نے دریائی زمینوں کو اپنے سیاسی اثر ورسوخ کے سبب نہ صرف غیر قانونی طور پر منظور کروا لیا،بلکہ اس کے ذریعے اربوں........
© Daily Pakistan (Urdu)
