پہلے میں
رات کے گیارہ بجے تھے کہ دروازے کی بیل بجی، میں جلد سوتا ہوں تاکہ جلد اٹھ کر فجر کی نماز کے بعد واک کر سکوں۔ اس کے لئے میرے واک گروپ کے ساتھی پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا راہ رو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا۔ اس لئے دروازہ کھولنے کی زحمت نہیں کی۔ ویسے بھی سب عزیز و اقارب اور دوستوں کے پاس میرا نمبر موجود ہے وہ کال کرلیتے ہیں مگر نہیں صاحب آنے والے نے تو ٹھان رکھی تھی کچھ بھی ہو جائے مل کر جانا ہے۔ تین بار مزید وقفے وقفے سے بیل بجی تو میں نے تقریباً غصے کے عالم میں بستر چھوڑ کر دروازے کی طرف دوڑ لگائی کہ مبادا پھر بیل آ جائے۔ دروازہ کھولا تو ایک جاننے والا کھڑا تھا۔ میں نے اپنے غصے پر قابو پایا اور سوچا نجانے کس مصیبت کی وجہ سے اتنی رات گئے آیا ہے۔اسے اندر لا کر لان میں بٹھایا، حال احوال پوچھا۔ اندر سے شربت لا کر پلایا اور زحمت فرمانے کی وجہ پوچھی۔ فرمانے لگے آپ کا نادرا آفس میں کوئی واقف ہے۔ بیگم کا شناختی کارڈ زائد المیعاد ہو گیا ہے۔ وہ بنوانے جانا ہے، مگر سنا ہے وہاں رش بہت ہوتا ہے۔ کسی کو کہہ دیں تو جلد بن جائے گا، لمبی قطار میں نہیں لگنا پڑے گا۔ ایک لمحے کے لئے میرے دماغ کے تار ہل گئے، تھوڑا سا بلڈپریشر بھی اندر ہی اندر ہائی ہوا، لیکن گھر آئے مہمان کو کچھ کہا بھی تو نہیں جا سکتا۔ میں نے کہا آپ نے خوامخوا زحمت کی، یہ بات مجھے فون پر ہی کہہ دیتے۔ فرمانے لگے چونکہ کام بہت اہم ہے اس لئے میں نے سوچا خود جا کر کہوں۔ اب میری ہنسی چھوٹ گئی ان کے نزدیک دوچار منٹ پہلے باری مل جانابہت بڑا کام تھا۔ خیر میں نے اپنے ایک شاگرد کو جو نادرا سنٹر کا انچارج ہے فون کیا اور ان کا نام بتا کے مدد کرنے کی سفارش کی۔ وہ تھوڑی دیر بعد چلے گئے تو میں سوچنے لگا انہوں........
© Daily Pakistan (Urdu)
