ہذا من فضلِ ربی
میرے ایک دکھی دوست نے جو دوسروں کی ترقی سے بہت جلتا ہے، مجھے ایک تین کنال پر مشتمل عالیشان کوٹھی دکھائی، جس پر ہذا من فضلِ ربی لکھا تھا۔ اس نے کہا تمہیں پتہ ہے یہ کوٹھی کس کی ہے، میں نے کہا مجھے پتہ کرکے کیا کرنا ہے، میں نے کوئی خریدنی ہے، کہنے لگا یہ شہر کا ایک آڑھتی ہے، اس نے ایسی تین کوٹھیاں اور بھی بنا رکھی ہیں۔ میں نے کہا یار سجاد تو کڑھتا ہی رہتا ہے، اس نے ترقی کرلی ہے تو تجھے کیا تکلیف ہے، کہنے لگا مجھے تکلیف صرف اس عبارت سے ہے جو اس نے کوٹھی کے متھے پر لکھوا رکھی ہے۔ یہ اللہ کا فضل تو نہیں ہو سکتا، کیونکہ پورا شہر جانتا ہے وہ کتنا بڑا ذخیرہ اندوز ہے اور اکثر اشیاء ذخیرہ کرکے مہنگے داموں باہر نکالتا ہے۔ سجاد جس کی عمر لگ بھگ 65سال ہے، بتانے لگا یہ میرا پرانا واقف ہے، جب یہ منڈی میں پھڑیا ہوتا تھا۔ ریٹ نکالنے کی آوازیں لگاتا تھا اس کا سواج میانی میں ایک پانچ مرلے کا پرانا گھر ہوتا تھا۔ جب سبزی منڈی نیو ملتان منتقل ہوئی تو اس نے پرانی واقفیت کی وجہ سے ایک دکان قسطوں پر لے لی اور خود پھڑیئے سے آڑھتی بن گیا۔ اس کے بعد اس نے مڑ کے نہیں دیکھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ کسی پھل یا سبزی کا واحد آڑھتی بن گیا۔ کھیتوں سے مال اٹھوا لیتا تھا، اس کے بعد اپنے کولڈ سٹوریج قائم کئے اور وہیں رکھتا، ایک کی چیز کے پانچ روپے وصول کرتا۔ میں نے کہا پھر کیا ہوا، اس کا مال تھا جیسے مرضی بیچے،کہنے لگا لگتا ہے آج تم نے پی رکھی ہے۔ کیسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو، کیا منافع خوری کوئی جرم نہیں، کیا یہ ہمارے مذہب میں جائز ہے۔ کیا بلیک میں اشیاء خورونوش فروخت کرنا کسی اخلاقیات میں........
© Daily Pakistan (Urdu)
