menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

ایوب ملک

15 0
27.10.2025

گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی جاری کردہ 2025کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی سے دنیا بھر کے متاثرہ ممالک میں پاکستان ددسرے نمبر پر ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے حکمران ایک طرف ایک مذہبی جماعت پر پابندیاں لگانے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ٹی ٹی پی سے امن معاہدے کے خواہاں ہیں،اس کے ساتھ آج ہمارے حکمرانوں کو اپنی 78سالہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی اور ان وجوہات پر غور کرنا ہو گا کہ مذہبی جنونیت اور دہشت گردی کے خلاف ایک طویل مدتی اور مضبوط پالیسی کیوں نہ اپنائی جا سکی۔ آج ہمیں اپنی خارجہ پالیسیوں، افغانستان کے بارے میں حکمت عملی اور خود اپنے سماج کے اندر بڑھتی ہوئی شدت پسندی کو روکنے میں ناکامیوں اور تاریخی کوتاہیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتہا پسندی ہمارے سماج میں اچانک وجود میں آئی یا ہماری پالیسیوں کی وجہ سے اس میں مرحلہ وار اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یاد رہے کہ 1949ء کی قرار داد مقاصد کے منظور ہوتے ہی حکمرانوں نے مذہب کو ڈھال کی صورت میں استعمال کرنا شروع کر دیا تھاجس سے قائداعظم کے مقرر کردہ وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل ملک چھوڑنے پرمجبور ہوئے۔ اسی تسلسل میں 1953ء میں پنجاب میں مذہبی تشدد کے واقعات کے بعد مارشل لالگانا پڑا۔فسادات کے بعد جسٹس منیر کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا گیا جس کی رپورٹ پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میںمسلمانوں کی تعریف اور مختلف اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں کتنے متضاد خیالات تھے۔ اس دوران ریاست نے ہر قسم کے متبادل بیانیے کو اور خاص طور پر بائیں بازو کے بیانیے کو عوام تک پہنچنے سے روکا ۔ روس کے خلاف جنگ کا فیصلہ تو امریکا نے کیا لیکن ہم نے دنیا بھر سے مجاہدین بغیر کسی پاسپورٹ اور کاغذات کے افغانستان میں دھکیل دیئے جسکا خمیازہ صرف پاکستانی سماج ہی نہیں بلکہ پورا خطہ آج بھی بھگت رہا ہے۔ اس جنگ کے بعد ان شدت پسندوں کو اپنے قومی اثاثے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا گیااور یہ عناصر ہمارا اثاثہ بننے کے ساتھ ساتھ ہماری ریزو فورس........

© Daily Jang