menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

نواز رضا

12 1
22.09.2025

پاکستان کی 75سالہ سیاسی تاریخ کا شاید ہی کوئی دن ایسا ہوجس میں عوام نے سکھ کا سانس لیا ہو ۔نصف سے زائد وقت فوجی و نیم فوجی آمریت سے نبرد آزما ہونے کی نذر ہو گیا ۔ اگر سیاسی جماعتوں کو حکومت کرنے کا کچھ وقت مل بھی گیا تو اس وقت اپوزیشن نے حکومت کو سکون کے ساتھ حکومت کرنےکا موقع نہ دیا ۔ 1970ء کے سوا شاید ہی کسی انتخاب کو شفافیت کی سند حاصل ہوئی ہو بلکہ پہلے شفاف انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک ہی دو لخت ہو گیا ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ جمہوری تحاریک سے بھری پڑی ہے ۔پاکستان میں جمہوری یا غیر جمہوری حکومتیں گرانے کیلئے جتنے سیا سی اتحادبنتےاور ٹوٹتے رہے ہیں شاید ہی پون صدی کی تاریخ کے حامل کسی ملک کے نصیب میں آئے ہوں ۔ہماری زندگی کا بیشتر وقت حکومتیںگرانے کی نذر ہو گیا۔سیاسی جماعتوں کے درمیان لڑائی کا فائدہ تیسری قوت ہی اٹھاتی اور پھر جب فوجی حکومتیں قائم ہو جاتی ہیں تو ان سے جان چھڑانے میں 10،10سال لگ جاتے ہیں۔پاکستان میں ’’سول اور ملٹری بالا دستی ‘‘ کی جنگ آزادی کے بعد ہی شروع ہو گئی تھی شروع دن سے سول حکومتوں کو پائوں جمانے کا موقع نہ دیا گیاجسکی وجہ سے جمہوری نظام بار بار حادثات کا شکار ہو تا رہا ۔ پاکستان میں جب تک جمہوری حکومتوں کو اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل رہی انہوں نے خوش اسلوبی سے کام کیا لیکن جونہی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جنگ شروع ہوتی ہے، حکومت گرانے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں،اچانک سیاسی مخالفین سڑکوں پر نکل آتے ہیں ،لانگ مارچ کی کال دے دی جاتی ہے، ریڈ زون جو وفاقی حکومت کی ریڈ لائن ہے پر قبضہ کر کےنہ صرف حکومت کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جاتی ہےبلکہ پارلیمنٹ اور وزیر اعظم ہائوس پر چڑھائی کرنے سے بھی گریزنہیں کیا جاتا ۔مسلم لیگ(ق) ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں قدرے پر سکون ماحول رہا لیکن ’’منصوبہ بازوں‘‘ نے جب دیکھا کہ نواز شریف سیاسی لحاظ سے مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں تو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ذریعےان کی حکومت گرانے کی کوشش کی گئی جب اس میں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو پھر نواز شریف کو گھر بھجوانےکیلئے........

© Daily Jang