فرنود عالم
حجام کی دکان نہیں رہی،اب سیلون کا زمانہ ہے۔شہروں میں لوگ سیلون اس کو کہتے ہیں جہاں کم از کم بھی ایک ٹن کا اے سی لگا ہو۔ اے سی نہ لگا ہو تو حجام کو باربر کہنے کا دل ہی نہیں کرتا۔اپنا آپ بھی کسٹمر کی بجائے گاہک لگنے لگتا ہے۔یہ بھی لگتا ہے کہ یہاں عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے گانے چلتے ہوں گے اور ایک ریزر دو بار استعمال کیا جاتا ہوگا۔دو ٹن کا اے سی لگا ہو تو لگتا ہے یہاں بیلی آئلیش کے ٹریک چلتے ہوں گے اور چست قسم کی اسپائیک بنائی جاتی ہو گی۔
لوگ اپوائنٹمنٹ لیکر سیلون جاتے ہیں اسلئے باری کا زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا۔انتظار کرنا پڑ جائے تو بوریت نہیں ہوتی۔وائی فائی کاپاسورڈ لیں اور دنیا سے کنیکٹ ہوجائیں۔سیلون میں لوگوں کا شور نہیں ہوتا، موبائلوں پر چلنے والی ریلز کا شور ہوتا ہے۔کسی کے موبائل پر کامیڈی ہے،کسی پرمیوزک ہے اور کسی پر کوئی یوٹیبیائی دانشور ہے جو کہہ رہا ہے لنگوٹ کس لو نیپال والا انقلاب پاکستان پہنچ رہا ہے۔
حجام کی دکان سیلون سے بالکل مختلف ایک چیزتھی۔وہاں بال ہی نہیں بنائے جاتے تھے سر بھی کھائے جاتے تھے۔حجام کی دکان پر اے سی نہیں دیکھا جاتا تھا، اخبار دیکھا جاتا تھا۔اب تو سیلون پہنچتے ہی لوگ سی ٹائپ چارجر کا پوچھتے ہیں،تب اخبار کا پوچھتے تھے۔
اخبار سے پتہ چلتا تھا کہ حجام کا معیار کیا ہے۔جسکے پاس کل کا اخبار ہوتا وہ آج کے حساب سے بغیر اے سی والا حجام ہوتا تھا۔جسکے پاس نوائے وقت ہوتا وہ ایک ٹن اے سی والاحجام ہوتا تھا۔دو ٹن اے سی والا حجام وہ تھا جسکے پاس جنگ اخبار ہوتا تھا۔جوحجام طبعیت کا بنیا ہوتا تھا اس نے نوائے وقت اور جنگ دونوں رکھے ہوتے تھے۔ وہ دوپہر کو توے سے اترا ہوا گرما گرم ضمیمہ بھی خرید لیتا تھا۔رنگا رنگی کی وجہ سے سب سے زیادہ بحث مباحثے اسی حجام کے ہاں ہوتے تھے۔حجام کی اس دکان کی ریٹنگ ہائی ہوتی تھی جہاں لوگ دو سیاست دانوں کی طرح گتھم گتھا ہوجاتے تھے۔چھوٹو بیچ بچائو کرواتا تھا اور حجام پروڈیوسر کی........
© Daily Jang
