وجاہت مسعود
کسی بھلے مانس کا چلن جاننا ہو یا کسی نگر کا منش معلوم کرنا ہو، کتابوں میں آیا ہے کہ کوچہ و بازار میں خلقت کی بولی پر کان دھرو۔ خوش نصیب ہیں وہ بستیاں جہاں کے باسی لفظ کی پرکھ رکھتے ہیں اور بول کا برتائو? جانتے ہیں۔ بے شک وہ دیس بے نشاں ہوئے، جہاں لفظ معنی کھو بیٹھے، آوازیں شور میں بدل گئیں اور عقل کی کتاب غبار آلود ہوئی۔ ان دنوں ہماری زمین اسی عذاب سے دوچار ہے۔ ہماری بستی کی تاریخ پرانے وقتوں سے کسی درویش کی صدائے دردناک کے نیزے پر ٹنگی ہے۔ جنتا اور رکھشا میں دھرتی پر دعوے کا جھگڑا ایسی پرپیچ گھاٹیوں سے گزرا ہے کہ لڑائی کی صفیں بے ترتیب ہو گئی ہیں۔ سپاہ اور مخبر میں فرق مٹ گیا ہے۔ بھگتی اور لوٹ مار کی لکیریں صحرا کی آندھیوں میں زیر و زبر ہو چکیں۔ حویلی کے مکیں تو قرنوں پہلے کھیت رہے۔ وارث انکے رائیگانی کی دھوپ تلے لاحاصل کی فصل کاٹتے ہیں۔ کچھ برس قبل ایک مرکھنے سانڈ کو جس نے سرلشکر بہادر کے راتب پر قد نکالا تھا، خانہ زادوں کا ایک لشکر اسکی دیکھ ریکھ پر مامور تھا، درباری پرچہ نویسوں کے ایک ہجوم نے کندھوں پر اٹھا کر بڑے مندر میں لا بٹھایا۔ طفلان گلی کوچہ کا ایک ہجوم شریک جلوس ہوا۔ یہ ان گھڑ چوبی پتلا خود کو سمراٹ سمجھ بیٹھا۔ وہی سیتا پور کے سید محمد اشرف کی کہانی ’نمبردار کا نیلا‘ کی تمثیل تھی۔ اب مشکل یہ ہے کہ پرانے لشکروں کے تھکے ماندے بوڑھے سپاہی سامری کے بچھڑے کو ڈنڈوت کرنے سے انکاری ہیں۔ نوجوان تلنگے جدھر منہ اٹھاتے ہیں، گالیوں کا جھاڑ باندھ دیتے ہیں۔ انکی تاریخ 30اکتوبر 2011ء سے شروع ہوئی۔ 2014ء کے دھرنے سے گزرتی ہوئی 25 جولائی 2018 ءکو شاہی محل کے دیوان خاص تک پہنچی۔ اس دوران ملک کی اقتصاد تباہ ہوئی۔ کاروبار مملکت کی بنیادیں بیٹھ گئیں۔ قومی وقار خاک میں مل گیا۔ سیاست پہلے تماشا بنی اور پھر سازش کے گرد باد میں الجھ کر 10اپریل 2022 ءکو محل سرا کی دہلیز پر اوندھے منہ گری۔ گزشتہ نازبرداری کے زعم میں اٹھ کر 9مئی 2023ءکو شہر پناہ پر ٹکر دے ماری۔ اب ’سامری کا بچھڑا‘ ملٹن کی........
© Daily Jang
