menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

عوام کو جواب دہ کون؟

11 14
30.11.2025

اس ملک کی فضا میں ایک سوال بہت دیر سے معلق ہے، بے شمار بار پوچھا گیا، مگر نہ کبھی جواب ملا اور نہ کسی نے دینے کی کوشش کی۔ وہ سوال یہ ہے کہ عوام کو جواب دہ آخر کون ہے؟ گھر کے خالی برتن، دکانوں پر بڑھتی قیمتیں، بیمار ماں کی دوا، بے روزگار نوجوان کا چہرہ، مزدور کے ہاتھوں کی سختی، سب اسی سوال کو دہراتے ہیں۔ مگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں تک نہ تو یہ آواز پہنچتی ہے اور نہ وہ اسے سننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ عوام کا دکھ اب کسی سیاسی نعرے کا حصہ تو بن جاتا ہے، مگر کسی عملی فیصلے کا حصہ نہیں بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ مایوسی کے بادل ہر گزرتے دن کے ساتھ اور گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
آج ملک کی گلیوں میں نکل کر دیکھیں تو ہر قدم پر ناامیدی، ہر گھر میں بے بسی اور ہر چہرے پر شکستہ خوابوں کی دھول نظر آتی ہے۔ لوگ اب پوچھتے نہیں، صرف دیکھتے رہ جاتے ہیں، کیونکہ سوال کرنا تب ممکن ہوتا ہے جب سامنے جواب دینے والا موجود ہو۔ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ عوام کی چیخیں بھی سیاسی بیانیوں کی گونج میں دب کر رہ گئی ہیں۔ جو بچہ دودھ کے لیے روتا ہے، جو ماں مہنگائی کے ہاتھوں روتی ہے، جو بزرگ دوا نہ ملنے پر بے بس ہیں، وہ سب صرف اس نظام کے خاموش مقتول ہیں، جن کی موت کا کوئی قاتل نہیں۔ اس معاشرے میں غریب کی سانس بھی اگر رک جائے تو وہ’’ قدرت کا فیصلہ‘‘ کہلاتا ہے، مگر اشرافیہ کے لئے معمولی سی تکلیف بھی ’’ قومی سانحہ‘‘ بن جاتی ہے۔
بازاروں کی رونقیں ختم ہو چکی ہیں، مگر دکانداروں کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔ خریداروں کی جیب خالی ہے اور دکاندار کی الماری بھی۔ لوگ خریدنے کی ہمت نہیں رکھتے اور بیچنے والے فروخت نہ ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ایک دکاندار نے کہا کہ ’’ صاحب، اب تو وہ وقت آگیا ہے کہ لوگ خریدنے کے لیے نہیں، قیمتیں سننے کے لیے آتے ہیں اور پھر افسوس کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔‘‘ یہ جملہ صرف ایک دکاندار کا نہیں، پورے ملک کی جلتی ہوئی حقیقت ہے۔
گھر کے حالات بھی کسی سے چھپے نہیں۔ بجلی کا بل کسی پھانسی کے پروانے سے کم نہیں لگتا۔ گیس کے بلوں نے چولہے ٹھنڈے کئے ہوئے ہیں۔ لوگ گرم کپڑے پہن کر بیٹھے ہیں مگر گیس کی چولہا روشن نہ ہونے کی ٹھنڈ اتنی شدید ہے کہ دل تک اتر جاتی ہے۔ بچوں کو سکول بھیجنا مشکل ہو گیا ہے، علاج ایک خواب بن چکا ہے اور روزمرہ کی خریداری جنگ بن گئی ہے۔ یہ سب کچھ کب اور کیسے ٹھیک ہو گا؟ اس کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔
نوجوان اس ملک کا سرمایہ کہلاتے ہیں، مگر یہی نوجوان آج سب سے زیادہ تکلیف میں ہیں۔ ڈگریاں ہاتھ میں لیکن روزگار نہیں۔ خواب آنکھوں میں مگر راستے بند۔ ان کی محنت، ان کی صبحیں، ان کے سال۔ سب بے کار جا رہے ہیں۔ جب ایک نوجوان صبح اٹھ کر صرف یہ سوچے کہ آج بھی کوئی........

© Nawa-i-Waqt