"واہمہ" سوشل میڈیا سے ...
جب سے ہوش سنبھالا ہے ’’پاکستان کی شہ رگ‘‘ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے بارے میں سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں کی جانب سے جذباتی تقاریرہی سننے کو ملی ہیں۔ بھارت اور مسئلہ کشمیر پر 1984ء سے بطور رپورٹر کامل توجہ 20سے زیادہ برسوں تک مبذول رکھنے کے باوجود لیکن پاکستان میں کسی ایسے محقق یا لکھاری سے ملنا نصیب نہیں ہوا جو کشمیر کی تاریخ اور سیاسی تحاریک کے بارے میں چشم کشا معلومات فراہم کرسکے۔ بھارت کے قبضے میں موجود کشمیریوں سے ملاقاتیں مگر اس تناظر میں حیران کردیتی ہیں۔ مذکورہ تناظر میں نام گنوانا شروع کردوں تو وہ موضوع نظرانداز ہوجائے گاجس پر یہ کالم لکھنا چاہ رہا ہوں۔ فقط یہ اعتراف کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا کہ حال ہی میں دارفانی سے رخصت ہوئے کشمیری رہ نما عبدالغنی بھاٹ صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی توخود کو کاملاََ جاہل محسوس کرتا۔ مرحوم بنیادی طورپر فارسی زبان کے استاد تھے۔ فارسی کے کلاسیکی شعراء کے کسی مصرعہ کے ذریعے پیچیدہ ترین سیاسی موضوع کو یک سطری لفظوں میں بیان کردیتے تھے۔ ان کے ساتھ ملاقاتیں نہیں طالب علم کی کسی استاد کے ہاں عاجزانہ حاضری ہوا کرتی تھی۔
اصل موضوع کی طرف لوٹتا ہوں۔ مقبوضہ کشمیر کاخیال ذہن میں آئے تو جی یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتا ہے کہ ہم اسے بھلاچکے ہیں۔ میرے دعوے کو آپ تلخ ٹھہراکر ٹھکرا سکتے ہیں۔ آج کا زمانہ مگر ڈیجیٹل کہلایا جاتا ہے۔ X اور فیس بک وغیرہ پر جو بھی پوسٹ ہو اس کے پڑھنے والوں کی تعداد مشینی ذرائع سے طے ہوجاتی ہے۔ ڈنڈی مارنے کا اس ضمن میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ پوسٹ ہوئی تحریر پر تبصرے یہ حقیقت بھی عیاں کردیتے ہیں کہ اسے پڑھنے والے کتنے ’’سنجیدہ‘‘ ہیں۔
چند روز قبل میں نے جموں کے مؤقر روزنامے ’’کشمیر ٹائمز‘‘ میں قسط وار چھپے ایک حلف نامے کا ذکر کیا تھا۔ مشہور حریت پسند رہنما یاسین ملک نے اسے دلی ہائی کورٹ میں جمع کروایا ہے۔ مین سٹریم بھارتی میڈیا میرا کالم اور ’’کشمیر ٹائمز‘‘ میں مذکورہ حلف نامے کی پہلی قسط چھپنے کے بعد سے اب تک مذکورہ حلف نامے سے چند سنسنی خیز کہانیاں نچوڑنے میں مصروف ہے۔ ان کہانیوں کا........
© Nawa-i-Waqt
