لومڑی کا سایہ
بی بی صاحبہ کے تعویذ گنڈے گنڈا پور کو لے بیٹھے، فی الحال جزوی طور پر ہی سہی اور وہ پارٹی کی صوبائی صدارت سے محروم کر دئیے گئے۔ گنڈاپور خود بھی پہنچے ہوئے بزرگ اور پختہ کار رحونیاتی ہستی ہیں کہ ہر وقت عملیات والا اسلامی شہد اپنے پاس ، کنستروں کے حساب سے رکھتے ہیں۔ فی الحال کہا جا سکتا ہے کہ بی بی صاحبہ کے عملیات نے صدارت چھین لی لیکن گنڈاپور نے اپنے عملیات سے وزارت اعلیٰ بچا لی۔
’’مرشد‘‘ نے گنڈاپور کو جیل میں بلوایا اور کہا کہ صوبے میں کرپشن بہت ہے، کئی وزیر کرپشن کر رہے ہیں، یہ ٹھیک کرو’’ کرپشن کے پی میں مرشدانی حکومت کے پہلے دن سے ہے لیکن مرشد کو تب یاد آئی جب مرشدانی نے شکایت کی۔ وہ شکایت نہ کرتیں تو کرپشن کا سوال نہیں اٹھتا تھا۔ بظاہر گنڈاپور کی وزارت اعلیٰ بچ تو گئی ہے لیکن اس پر تلوار سی لٹک گئی ہے، کہتے ہیں بس بی بی صاحبہ کے ایک اور عملیات والے وار کی دیر ہے، یہ بھی گئی۔
کھٹکا لگا ہوا ہے کہ گنڈا پور کو ہٹایا تو پھر کیا پتہ، کون آ جائے۔ پارٹی میں دھڑے بندی بہت ہے۔ صوبائی قیادت ساری کی ساری گنڈا پور کے مخالفوں کے ہاتھ آ گئی ہے اور تاریخ کا عجوبہ ترین منظر یہ ہے کہ صوبے میں حکمران پارٹی اور حکومت دو الگ الگ چیزیں ہو گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ گنڈا پور ہیں لیکن کرپشن کے الزام میں کن وزیروں کو برطرف کرنا ہے اور کس کس کو نیا وزیر بنانا ہے، اس کا فیصلہ ان کے مخالفین کا گروپ جنید اکبر کی قیادت میں کرے گا۔ پارٹی کے اندر ہی دنگل شروع ہے، ایک خانہ جنگی ہوتی ہے تو اب پتہ چلا کہ ایک خانہ دنگلی بھی ہوتی ہے۔
8 فروری کو یعنی لگ بھگ ایک ہفتے بعد مرشدانی پارٹی نے ایک اور احتجاج کا فیصلہ کیا ہے لیکن احتجاج کی شکل کیا ہو گی، ابھی طے نہیں کیا۔ کہا کابل چلے جائیں، کہا کابل........
© Nawa-i-Waqt
visit website