menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

گدھے ودھے ‘ گھوڑے شوڑے ‘ خچر و چر سب

3 0
wednesday

شاعروں کے کلام کے ساتھ کھلواڑ کرنا اور پھر خصوصاً مشہور شعرائے کرام کے اشعار میں تحریف کرکے انہیں فکاہیہ صورت دینا بالکل عام سی بات ہے اب یہی دیکھ لیجئے کہ مرزا غالب کا ایک مشہور زمانہ شعر ہے کہ
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہمنشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
یہ شعر ا کثر تختہ مشق رہتا ہے کبھی درست صورت میں اور کبھی حالات کے تناظر میں لکھاری اس میں تحریف کرکے اسے فکاہی صورت دے دیتے ہیں جیسے کہ ایک تازہ خبر کے حوالے سے ہم مرزا غالب کی روح سے معذرت کرتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کی جسارت کر رہے ہیں تو عرض ہے کہ گدھوں کا جیسے ذکر کیا تونے ہمنشیں
اک لات جیسے پشت پہ ماری کہ ہائے ہائے
جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اصل مصرعہ ”تیر میرے سینے میں” کے الفاظ لئے ہوئے ہیں اور تیر سینے میں ہی مارا جاتا ہے یعنی پرانے دور کے سورما سامنے آکر ہی وار کرتے تھے ‘ تاہم کسی گدھے سے یہ توقع ہی فضول ہے کہ وہ جب دولتی جھاڑے گا تو سامنے سے وار کرے گا اس حوالے سے وہ جو ایک قدیم دور کے شاعر استاد رامپوری نے کہا تھا کہ
ہم گدھے کو گدھا سمجھتے ہیں
وہ ہمیں جانے کیا سمجھتے ہیں
تو اب کہیں جا کر سمجھ میں آیا کہ یقینا وہ یعنی گدھے بھی انسانوں کے حوالے سے کچھ ایسے ہی خیالات رکھتے ہوں گے جبھی تو اپنی فطرت اور عادت ثانیہ کے مطابق ”پیچھے” سے ہی دولتی جھاڑتے ہیں اب جن لوگوں نے گدھے کی اس ”فطری محبت” کا مزہ چکھا ہے وہی بہتر جانتے ہوں گے اور پشتو میں اس حوالے سے جو محاورہ مشہور ہے کہ ”گدھے کی محبت ‘ لات مارنا”تو ایسا کیوں کہا جاتا ہے ۔ ویسے بھی فکر کی بات تو ہے کہ اردو میں جو محاورہ مشہور ہے وہ بھی بلا جواز ہر گز نہیں ہو سکتا یعنی گدھے کے سر سینگ نہیں ہوتے یعنی اگر واقعی گدھے کے سر سینگ ہوتے تو........

© Mashriq