باگرام ائر بیس کا قضیہ
افغان طالبان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے باگرام ائر بیس حوالے کرنے سے متعلق بیان پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت امریکہ افغانستان کے خلاف طاقت کا استعمال یا اسے دھمکی نہیں دے سکتا اور یہ کہ امریکہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا پابند ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ برطانیہ کے موقع پر برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کی موجود گی میں کھلے الفاظ میں باگرام ائر بیس واپس لینے کے عزم کااعادہ کیاہے ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے طالبان کو باگرام ائر بیس مفت میں دے دی تھی لیکن اب ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یادر ہے کہ 2021میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے دوران امریکا نے 20 سال بعد بگرام ائر بیس افغان حکام کے حوالے کر دی تھی۔ تاہم صدر ٹرمپ نے افغانستان سے انخلاء کے وقت چھوڑا گیا اسلحہ اور باگرام ائر بیس واپس لینے کا اعلان کیا ہے ۔ امریکی صدرٹرمپ کے افغانستان کے باگرام ایئر بیس کو دوبارہ امریکی کنٹرول میں لانے کے اعلان نے نہ صرف کابل اورواشنگٹن تعلقات میں کشیدگی پیدا کی ہے بلکہ خطے کی طاقتوں چین، روس، ایران اور خاص طور پر پاکستان کے لیے بھی سنگین جغرافیائی و سٹریٹیجک سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ اسٹریٹیجک ماہرین کا خیال ہے کہ باگرام واپس لینے کے لیے واشنگٹن کو عسکری طور پر ایک بڑا اور طویل المدتی کمٹمنٹ درکار ہوگا ممکنہ طور پر ہزاروں فوجی، لاجسٹک سپورٹ اور ہوا بازی کی جدید دفاعی وسعتیں ایک بار پھر بروئے کار لانی ہوں گی جو پلوں کے نیچے بہت سارا پانی گزرجانے کے بعد بالخصوص ان حالات میں ممکن نہیں ہے جب ایک جانب اس خطے میں روس اور یوکرین برسرپیکار ہیں ،ثانیا چین نے پچھلی دو دہائیوں کے........
© Mashriq
