اس قدر رسوائی افسوس!
عزت نفس ہوتی کیا ہے یہ کیسے مجروح ہوتی ہے یہ تو کسی نے ہم کو بتایا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی ہم نے سیکھنے کی ضرورت محسوس کی قانون کیا ہوتی ہے اس کا احترام کیسے کیا جائے اور اس کی پیروی کیسے ہو اس سے ہم آشنا ہی نہیں ہمارے ہاں قوانین کا احترام اور ان کی پیروی کی بجائے قانون شکنی زیادہ قابل فخر چیز ہے یہی وجہ ہے کہ ٹریفک کا اشارہ توڑنا اسلحہ کی نمائش ہوائی فائرنگ وغیرہ وغیرہ کے مظاہر سر عام اور سر عام بڑے فخر سے ہوتی ہیں ہر ایک اپنے دائرہ کار میں قانون شکنی اور قانون سے کھلواڑ کو اپنا حق سمجھتا ہے ایک استاد اپنے لڑکے کو کھلے عام یہ کہہ کر نقل کروا رہا تھا کہ یہ ان کا حق ہے آخر اس ٹیچنگ میں اس کے علاوہ ہے ہی کیا اگر وہ اپنے بیٹے کو نقل ہی نہ کروا سکے تو پھر ۔۔ ۔ اس نوکری پر مگر جب ا یٹا کے امتحانات یعنی ٹیسٹ میں دوسروں کے بچے موبائل کا استعمال کرتے ہوئے پکڑا جائے تو موبائل سمیت اس کی تصویر کھینچ کر فیس بک پر ڈال دی جاتی ہے کہ دنیا دیکھے کہ کمال کی جاسوسی کا مظاہرہ کرکے نقل پکڑا گیا ہے گویا انہوں نے ایک طالب علم کو نہیں کلبھوشن یادیو کا پورا نیٹ ورک پکڑ لیا ہو۔اس قدر رسوائی اور ذلت کا شکار بنانا ان طالب عملوں کو جنہوں نے نقل کی ہمت کی کیا کسی کو معلوم نہیں کہ ایسا کرنا ہتک عزت ہے یہ سائبر کرائمز میں آتا ہے قانون کے مطابق جو بھی جان بوجھ کر اور عوامی طور پر کسی شخص کی ساکھ یا راز داری کو نقصان پہچانے........
© Mashriq
