آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے
وہ جو کہتے ہیں نا کہ رموز مصلحت ملک خسرواں دانند، تو اب اللہ ہی جانتا ہے کہ پالیسی تب درست تھی یا اب اسے صحیح قرار دیا جائے، اور حافظ کے محولہ بالا شعر کے دوسرے مصرعہ سے رجوع کرتے ہوئے ہم بھی حافظ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کہیں گے کہ” گدائے گوشہ نشینی تو حافظامہ خروش” تاہم مسئلہ صرف ہماری ذات کا تو ہے نہیں کہ خاموشی کی بکل اوڑھ کر زمینی حقائق سے آنکھیں موند لی جائیں، اس لئے پہلے اس خبر پر نظر ڈالتے ہیں جو اس کالم کی بنیاد بنی ہے اور خبر یہ ہے کہ پوست اور بھنگ کی فصل تباہ کرنیکی بجائے خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر ہمیں وہ دور یاد آگیا جب نہ صرف عالمی سطح پر افغانستان میں پوست کی کاشت پر شدید رد عمل سامنے آیا تھا کیونکہ پوست سے افیون حاصل کر کے اس سے ہیروئن بنائی جاتی اور مغربی معاشرے اس سے بری طرح متاثر ہوتے تھے، بلکہ صوبہ سرحد کے بالائی علاقے گدون امازئی میں بھی پوست کی کاشت کا سلسلہ مدتوں سے چلا ا رہا تھا اور پوست کیے کاشکاروں کو متبادل روزگار کی فراہمی کیلئے وہاں انڈسٹریل ایریا تعمیل کرنے کیلئے عالمی برادری کی سرپرستی میں بے پناہ فنڈز دیکر ان کارخانوں میں روزگار کی فراہمی یقینی بنائی گئی، جبکہ کراچی، لاہور اور فیصل آباد کے صنعت کار گدون انڈسٹریل ایریا کے قیام میں پہلے تو روڑے اٹکاتے رہے کیونکہ گدون کی صنعتوں کیلئے پانچ سال تک ٹیکسوں وغیرہ میں زبردست چھوٹ اور دیگر مراعات کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ ان رعایتوں کا........
© Mashriq
