menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

ایک وسیع خوان لیغما

11 6
24.12.2025

کبھی کبھی تو ہمیں اپنے اس وطن عزیز پر ’’خوان لغیما‘‘کا گمان ہونے لگتا ہے، جو یقین سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے، حافظ شیرازی کے ایک شعر کا ترجمہ ہے کہ دہائی ہے کہ شہر آشوب کی یہ شوخ وشنگ حسینائیں دلوں کا صبر یوں لوٹ لیتی ہیں جیسے ’’ترک‘‘ خوان لغیما کو لوٹتے ہیں۔اب اس میں دو چیزیں ذرا تفصیل طلب ہیں۔ ایک’’خوان لغیما‘‘ اور دوسری ترک ۔ اور ان دونوں چیزوں کا تعلق قدیم ایرانی معاشرے سے ہے۔

قدیم معاشرے میں جب امیر لوگ کسی دعوت کا اہتمام کرتے تھے تو پہلے امراء و خواص کھانا کھالیتے تھے ، پھر ادھر ادھر موجود اور منتظر گداگروں اور غریب غربا کو خوان لغیما پر چھوڑ دیتے تھے۔ یہ بھوکے اور بے صبرے لوگ دسترخوان کا وہی حال کرتے تھے جو پاکستان کا ان دنوں سیاسی لیڈروںاور اشرافیہ نے کر رکھا ہے۔ فارسی شاعری میں ’’ترکوں‘‘ کا مطلب حسیناؤں کا بھی ہے اور غریب غربا گداگروں کا بھی کیونکہ ترک لوگ اکثر ایران میں مزدوری اور رزق کمانے کے لیے آتے اور خوبصورت بھی ہوتے تھے جیسے حافظ نے کہا ہے کہ

اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا

بخال ہندوش بخشم ثمر قندو بخارا را

ترجمہ۔اگر وہ’’ترک شیرازی‘‘(یہاں ترک کا مطلب حسینہ ہے)ہاتھ لگ جائے تو میں اس کے کالے تل(ہندوش کا مطلب کالا) پر ثمر قند وبخارا کو وار دوں، کہا جاتا ہے کہ حافظ کو اس پر لنگڑے تیمور سے ڈانٹ بھی پڑی تھی۔رحمان بابا نے بھی کہا ہے کہ........

© Express News