دور ہوتی خوابوں کی سرزمین
امریکا جسے برسوں سے لوگ خوابوں کی سرزمین کہتے ہیں، اس سرزمین پر ایک نیا حکم جاری ہوا ہے، ایچ ون بی ویزا جو برسوں سے لاکھوں نوجوانوں کے خوابوں کی ڈور بنا ہوا تھا، اب ایک نئی شرط کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ ہر نئی درخواست کے ساتھ کمپنیوں کو ایک لاکھ ڈالر جمع کرانا ہوگا۔
بعد میں وضاحت آئی کہ یہ صرف نئی درخواستوں پر لاگو ہوگا مگر خبرکا صدمہ اتنا بڑا تھا کہ ہزاروں گھروں میں بیٹھے طلبہ ان کے والدین اور وہ ادارے جو اس ویزے پر انحصارکرتے ہیں، سب کو ایک لمحے کے لیے لگا جیسے مستقبل تاریک ہوگیا ہو، جیسے خواب ٹوٹ گئے ہوں۔
امریکا کی طاقت اس کی فوجی برتری یا اسلحہ خانوں میں نہیں بلکہ ان یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں ہے جنھوں نے دنیا کے ذہین ترین دماغوں کو اپنی طرف کھینچا۔ ایک پاکستانی نوجوان، ایک بھارتی انجینئر، ایک ایرانی سائنسدان یا ایک افریقی ڈاکٹر یہ سب امریکا کی لیبارٹریوں اور کمپنیوں میں اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دیتے رہے۔ یہ ایک ایسی گردش تھی جسے دنیا نے برین ڈرین کہا اور امریکا نے اس ڈرین کو اپنی طاقت میں بدل لیا۔ مگر آج جب ٹرمپ جیسے حکمران امریکی نوکریاں صرف امریکیوں کے لیے کا نعرہ لگاتے ہیں تو یہ سوچنا بھول جاتے ہیں کہ ان نوکریوں کو پیدا کرنے والے دماغ کہاں سے آتے ہیں۔
یہ فیصلہ محض ایک ویزا پالیسی نہیں بلکہ ایک بڑا اور اہم سوال ہے۔ کیا امریکا اپنے گرد حصار اونچے کر کے خود کو محفوظ کر........
© Express News
