menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

آج کے نوجوان

7 4
previous day

کہتے ہیں کہ بعض آوازیں وقت سے آگے نکل جاتی ہیں۔ وہ صدیوں کے سکوت کو چیرکر ایسی بازگشت بن جاتی ہیں جو دریچوں میں، آنگنوں میں اور دلوں میں دیر تک گونجتی رہتی ہیں۔

کبھی،کبھی تو ایک سادہ سا جملہ ایک تختی پر لکھا ہوا سچ، سلطنتوں کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک لمحہ ہمیں 2018 کے اواخر میں ملا جب ایک پندرہ سالہ نحیف سی سویڈش لڑکی ایک ہاتھ میں کتاب تھی اور دوسرے ہاتھ میں ایک تختی جس پر لکھا تھاSchool Strike for Climate  یعنی ’’ ماحولیاتی انصاف کے لیے اسکول سے ہڑتال‘‘ اور وہ سویڈن کی پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھ گئی۔

یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا، بظاہر لیکن اس خاموش احتجاج نے دنیا کے ضمیرکو جھنجھوڑکر رکھ دیا۔ اس بچی کا نام گریٹا تھنبرگ تھا۔ اس کی آنکھوں میں سوال تھے، ماتھے پر فکرکی شکن اور دل میں وہ درد جو ہر حساس روح کو تڑپا دیتا ہے، زمین مر رہی ہے، فضا زہر آلود ہو چکی ہے، دریا سوکھ رہے ہیں، برف پگھل رہی ہے، جنگلات جل رہے ہیں اور ہم اب بھی خاموش ہیں۔ انسان کی حرص نے فطرت کو ویران کر دیا ہے اور آیندہ نسلوں کو جہنم کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔

گریٹا نے سوال کیا اُس نے کہا ’’تم بڑے ہو، تم نے ہمیں سب کچھ تباہ حال دے کر جانا ہے تو ہم کیوں نہ سوال کریں؟‘‘ اُس کا ہر لفظ تاریخ کے سینے پر ایک ان کہی چٹان بن کر گرا۔ اُس کی آواز وقت کی تیز رو لہروں میں گم نہ ہوئی بلکہ ابھر کر ہر اُس جگہ پہنچی جہاں سچ دبایا جا رہا تھا جہاں طاقتور طبقات ماحولیاتی تبدیلیوں کو سرمایہ........

© Express News