عالمی یومِ آبادی: ’اب وقت آچکا ہے کہ حکومت بڑھتی آبادی پر قابو پانے کے لیے واضح مؤقف اختیار کرے‘
ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی شرحِ آبادی کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ایک دہائی سے زائد عرصے سے خاموشی اختیار کی لیکن آخرکار کچھ سرکردہ عوامی شخصیات مسئلے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔
اپنی بجٹ تقریر میں وزیر صحت نے دعویٰ کیا کہ آبادی میں اضافہ صحت سے زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ وزیرِ خزانہ نے بار بار موسمیاتی تبدیلی اور آبادی میں تیزی سے اضافے کو پاکستان کو درپیش دو وجودی خطرات کے طور پر بیان کیا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی و ترقی نے ریمارکس دیے کہ ہم بریک لگانے کے بجائے آبادی کے اضافے میں مزید تیزی لے کر آئے ہیں۔
پارلیمانی فورم آن پاپولیشن جوکہ ایک کراس پارٹی اقدام ہے، نے آبادی میں تیزی سے اضافے اور دستیاب وسائل کے درمیان توازن بحال کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کرنے کے خیال کی بھرپور حمایت کی ہے۔ اس کے علاوہ اگرچہ میڈیا سیاست میں مصروف ہے لیکن اب خاص طور پر پرائم ٹائم ٹاک شوز میں وہ آبادی کے مسائل پر بات کرنے لگے ہیں۔ لوگوں کی تنقید کا خوف اب کم ہوچکا ہے، اس لیے اب اس مسئلے پر زیادہ کھل کر بات ہورہی ہے جسے پہلے زیرِبحث نہیں لایا جاتا تھا۔
ایک اور اہم پالیسی اعلان وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے بہبود آبادی اور صحت کے محکموں کو ضم کرنے کی منظوری تھی۔ اس انضمام کا مقصد کام کی اوور لیپنگ کو کم کرکے چیزوں کو مزید مؤثر بنا کر خدمات کو بہتر بنانا ہے۔ سندھ میں پہلے ہی ایک بہت قابل وزیر موجود ہیں جو آبادی کی بہبود اور صحت کے دونوں محکموں کو کامیابی سے چلا رہی ہیں۔
کیا وہ وقت آچکا ہے جس کا ہمیں انتظار تھا؟ کیا یہ وقت باقی ترقی پذیر دنیا کے مقابلے میں بہت دیر سے آیا ہے جو ہمیں کئی دہائیوں پیچھے چھوڑ چکا ہے؟ کیا اب ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے؟ تینوں سوالات کا جواب ہاں ہے۔
اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے افراد کی جانب سے تشویش صرف اسی صورت میں معنی خیز ثابت ہوگی کہ جب وہ مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات بھی کریں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آبادی میں اضافے کو کم کرنا کسی پالیسی کی مانند نہیں کہ جسے نافذ کیا........
© Dawn News TV
