’یہ پنجروں کو کھولنے اور چڑیا گھروں کو مستقل طور پر بند کرنے کا وقت ہے‘
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ جب ہاتھیوں کو احساس ہوجاتا ہے کہ ان کی موت نزدیک ہے تو وہ وقار، ہمدردی اور امن سے تنہا مرنے کے لیے اپنا ریوڑ چھوڑ دیتے ہیں۔
لیکن نورجہاں اور سونیا نامی جنگلی افریقی ہتھنیاں جو 2009ء میں اپنے بچپن میں ہی تنزانیہ سے پکڑی گئی تھیں، انہیں عام ہاتھیوں جیسا انجام میسر نہیں ہوا۔ وہ لوہے کی سلاخوں کے پیچھے قید میں ہی مر گئیں جہاں وہ بیماری اور تنہائی میں مبتلا تھیں جبکہ وہ ایسے ماحولیاتی نظام سے بہت دور تھیں جو قدرت نے ان کے لیے بنایا ہے۔
کراچی چڑیا گھر میں جنگلی حیات اور دیگر جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے درجنوں رضاکار بیمار نورجہاں کی 24 گھنٹے نگرانی کرتے رہے، اسے ادویات اور کھانا دیتے رہے، اس کے زخموں کی دیکھ بھال کرتے رہے اور کرین کی مدد سے اسے کروٹ دینے میں مدد کرتے رہے اور جب وہ بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوگئی تو اس کی دیکھ بھال کرنے والے غمزدہ تھے۔
نورجہاں کے فوراً بعد سونیا بھی صرف 18 سال کی کم عمری میں تپ دق سے ہلاک ہوگئی۔ تپ دق کی حالت جنگلی ہاتھیوں میں شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتی ہے اور اکثر اس کا تعلق قید میں پیدا ہونے والے تناؤ سے ہوتا ہے۔ سونیا کی یادداشت میں لکھا ہے، ’سلاخوں کے پیچھے، روح کی آزادی کی تلاش میں، جہاں وہ کبھی چلی تھی، وہاں پھولوں کو کھلنے دو‘۔
جن لوگوں نے سونیا کو اس کے آخری ایام میں دیکھا، وہ ان جذباتی لمحات کو یاد کرتے ہیں۔ دو بہن ہتھنیوں میں سے ایک (سونیا)، اداسی اور غصے میں ایک املی کے درخت سے ٹکرا گئی تھی۔ دوسری بہن نے گہری محبت کا اظہار کرتے ہوئے اسے نرمی سے گلے لگایا۔ دل چھو لینے والے اس منظر نے سب کو باور کروایا کہ ہاتھی سماجی متحرک اور انتہائی حساس جانور ہیں۔ انہیں قید میں رکھنا نہ صرف ان کے جسموں کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ اس عمل سے ان کی روحیں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔
ان ہاتھیوں کی موت ایک المیہ تو ہے ہی مگر جدید دور میں چڑیا گھروں کے حوالے سے بڑھتے اخلاقی اور ماحولیاتی خدشات کی ایک واضح علامت بھی ہے۔ 2012ء کے بعد سے پاکستانی چڑیا گھروں میں ہاتھیوں کی یہ حالیہ اموات، جنگلی حیات کو قیدی بنانے کے انتظامات میں ایک وسیع تر بحران کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
ہاتھی جنگلات میں دن میں 20 سے 25 کلومیٹر چلتے ہیں، چارہ کھاتے ہیں، سماجی طور پر متحرک ہوتے ہیں اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس چڑیا گھر کے بند پنجروں میں ان کی نقل و حرکت چند سو میٹر تک محدود ہوتی ہے جو موٹاپا، جوڑوں کی تکلیف اور ان میں عجیب رویوں کا باعث بنتا ہے جیسے کہ بار بار چلنے اور سر کو دیواروں یا درختوں سے ٹکرانے جیسے عوامل بار بار ہوتے ہیں جو انہیں انتہائی تکلیف پہنچاتے ہیں۔
کراچی چڑیا گھر میں ہتھنی نورجہاں بیمار حالت میں—تصویر: رائٹرز
اور ہاتھی کبھی بھی اکیلے نہیں ہوتے۔ شیر، گیدڑ، ریچھ، زیبرا اور رینگنے والے جانوروں کی قسمت اکثر ایک جیسی ہوتی ہے جنہیں جنگلی حیات کی غیر قانونی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کے........
© Dawn News TV
