menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

غیرقانونی کان کنی کس طرح دریائے سوات کو ’قاتل دریا‘ میں تبدیل کررہی ہے؟

13 0
08.07.2025

ایک وقت تھا جب دریائے سوات میں کچھ مقامات پر پانی بہنے اور لہروں کی آوازیں، پوری وادی میں گونجتی تھیں۔ سیاحوں اور مقامی لوگوں کے لیے یہ ایسی دھن تھی جو تاریک راتوں اور سخت دنوں کو سکون بخشتی تھی۔ یہ سالوں پہلے کی بات ہے۔ آج یہ دریا خاموش اور ساکت ہے اور ان انسانی جانوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے جو اس کی نذر ہوئیں۔

27 جون کو سیالکوٹ کے 13 افراد پر مشتمل خاندان دریائے سوات میں آبی ریلے میں ڈوب گیا۔ وہ ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر مینگورہ کے قریب دریا کے کنارے ناشتہ کر رہے تھے۔ وہ غافل تھے کہ پانی کی سطح تیزی سے بڑھ رہی تھی اور چند ہی منٹوں میں انہوں نے خود کو دریا کے بیچ میں ریت کے ٹیلے پر محصور پایا۔

ٹیلے پر کھڑے وہ مدد کے منتظر تھے۔ لیکن مدد آنے تک یہ خاندان ایک ایک کرکے آبی ریلے میں بہہ گیا۔ جاں بحق ہونے والوں میں 7 سالہ ایان، 45 سالہ روبینہ، 18 سالہ عجوہ، 16 سالہ شرمین، 18 سالہ مرب اور 20 سالہ تزمین شامل ہیں۔ ان کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ ایک غمزدہ رشتہ دار نے کہا، ’وہ گھر سے نکلتے ہوئے ان چھٹیوں کے لیے پُرجوش تھے لیکن وہ سفید کفن میں گھر واپس آئے‘۔

وائرل ویڈیو کی اسکرین گریب میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے بدقسمت خاندان کو دکھایا گیا ہے جو دریا کے بیچ ٹیلے پر پھنسے ہیں

حتیٰ کہ سوات بھی سوگوار ہے۔ ’ہم شرمندہ ہیں‘، ایک رہائشی اور گاؤں کی دفاعی کمیٹی کے رکن فضل ودود نے کہا۔

خاندان کی اموات کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اس نے سوشل میڈیا پر مقامی حکومت کی نااہلی، ریسکیو سروسز کی آمد میں تاخیر اور مزید سوالات پر بحث چھیڑ دی۔ لیکن اس طرح کے واقعات میں اضافے کا ایک اہم عنصر جسے مقامی لوگوں نے بار بار اجاگر کیا ہے، زیرِ بحث نہیں جوکہ دریائے سوات کے کنارے پر بجری اور ریت کی کان کنی ہے۔

’اس نے ہمارے خوبصورت دریا کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے،‘ فضل ودود نے کہا۔ ’پانی ہمارا سب کچھ ہوا کرتا تھا۔۔۔۔ فخر، گھر، ذریعہ معاش۔۔۔ لیکن اب یہ تباہی کی حد تک کم ہوچکا ہے‘۔

زمین کی ساخت کی وجہ سے دریائے سوات کان کنی کے لیے بہترین جانا جاتا ہے۔ یہ پہاڑوں کے بیچ بہتا ہے، اس لیے اس میں بہت زیادہ بجری اور ریت ہوتی ہے جوکہ تعمیراتی صنعت میں استعمال ہونے والا اہم مواد ہے۔ اس قسم کی کان کنی نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں عام ہے۔

سماجی کارکن اور ماہر تعلیم ڈاکٹر رفیع اللہ کے مطابق، کان کنی کے عمل میں دریا میں تقریباً 15 سے 20 فٹ گہرے اور 10 سے 15 فٹ چوڑے گڑھے کھود کر پانی بھرنے دینا شامل ہے۔ جب ریت اور بجری پانی کے ساتھ نیچے بہتی ہے تو یہ ان گڑھوں میں جمع ہوجاتی ہے۔ بعد میں دریا کا راستہ تبدیل کردیا جاتا ہے تاکہ مواد کو اکٹھا کیا جا سکے اور کرشنگ پلانٹس تک لے جایا جا سکے۔

عموماً کان کنی سردیوں کے مہینوں میں کی جاتی ہے کہ جب دریا کا بہاؤ سست ہوتا ہے جبکہ ریت یا بجری نکالنے کا کام گرمیوں میں ہوتا ہے۔

پچھلے 10 سالوں میں سوات میں کان کنی میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کالام سے کانجو تک 240 کلومیٹر طویل دریائے سوات کے کنارے تقریباً 350 کرشنگ پلانٹس لگائے گئے ہیں۔ ریت تقریباً 7 ہزار روپے فی دینہ (ایک گاڑی جو اسے لے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہے) اور بجری تقریباً 3 ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ یہ کان کنی کو ایک بہت منافع بخش کاروبار بناتا ہے۔

ڈاکٹر رفیع اللہ نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ جگہ جگہ ایسے گڑھے کھودے گئے ہیں جن سے دریا کنویں میں تبدیل ہوگیا ہے۔ پہلے دریا کا ایک مقررہ راستہ تھا، اس لیے مقامی لوگوں کو معلوم تھا........

© Dawn News TV