menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

’طاقتور ریاستوں کے خوف میں، کمزور ممالک ایٹمی ہتھیار کو تحفظ کی علامت سمجھ رہے ہیں‘

15 0
yesterday

ایک ایسی دنیا میں کہ جہاں لاقانونیت بڑھتی جارہی ہے اور عالمی نظام بکھر رہا ہے، ممالک کو اب ایک انتہائی غیر متوقع ماحول میں اپنی جغرافیائی سیاست کے منظرنامے میں کام کرنا پڑرہا ہے۔

طاقتور ریاستیں اور علاقائی قوتیں اپنی مرضی دیگر ممالک پر مسلط کرنے کے لیے جبر و طاقت کا سہارا لے رہی ہیں۔ طاقت کا استعمال یا استعمال کی دھمکی ان کے لیے سب سے پہلا حربہ اور تنازعات کو ’حل‘ کرنے کا بنیادی ذریعہ بن چکا ہے۔ طاقتور ممالک کی جانب سے اپنے مخالفین یا کمزور ریاستوں کی خودمختاری پر حملے تواتر سے ہورہے ہیں۔ بعض اوقات ان جارحانہ کارروائیوں کو ’پیشگی جنگیں‘ کہا جاتا ہے۔

اسرائیل کی غزہ میں جنگ، اس کے ایران، شام، لبنان، یمن اور قطر پر حملے، روس کا یوکرین پر حملہ، ایران پر امریکی بمباری اور پاکستان کے خلاف بھارتی فوجی کارروائی، یہ تمام واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون پر عمل درآمد کرنے کے بجائے کس طرح طاقت کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے۔

کشیدگی اور بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے اس نئے دور نے ممالک کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ایران اور یوکرین پر ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک نے حملہ کیا۔ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے رکن ایران پر دو ایٹمی طاقتوں نے بمباری کی۔

اس صورت حال نے مزید ممالک کو یہ سوچنے پر آمادہ کیا ہے کہ ایٹمی ہتھیار ان کی سلامتی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ حالیہ واقعات سے سلامتی کے بحران سے دوچار ممالک نے جو سبق سیکھا ہے، وہ یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر ان پر بیرونی جارحیت اور خودمختاری پر حملوں کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

2025ء کی سالانہ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ مزید ممالک جوہری ہتھیار بنانے یا جوہری ہتھیار رکھنے پر غور کرسکتے ہیں۔ یہ ایسے وقت میں ہورہا ہے کہ جب ایٹمی طاقت رکھنے والی ریاستیں اپنے ہتھیاروں کے ذخائر کو مزید بڑھاتی ہیں اور انہیں مزید جدید بنا رہی ہیں جبکہ ہتھیاروں کے کنٹرول کی کوششیں مکمل طور پر رک چکی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ اعلان کہ امریکا دوبارہ ایٹمی تجربات شروع کرے گا، بظاہر روس کے اس دعوے کے ردِعمل میں کیا گیا ہے کہ جس میں روس کے مطابق اس نے........

© Dawn News TV