menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

کیا پاک-بھارت تنازع حل کرنے کے لیے کسی تیسرے فریق کو درمیان میں آنا ہوگا؟

9 1
previous day

پاکستان اور بھارت ایک بار پھر خوفناک تصادم کے دہانے پر ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے برصغیر کو ایک بے یقینی کی صورت حال میں دھکیل دیا ہے جس کی وجہ سے بحران پھیلنے کا خطرہ بڑھ چکا ہے کیونکہ دو طرفہ بات چیت کے راستے کو مکمل نظرانداز کیا جارہا ہے جبکہ سفارتی تعلقات مزید بدتر ہورہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں پہلگام حملے میں 26 شہریوں کی ہلاکت کے بعد سے بھارت نے پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھی شامل ہے جو دو ہمسایوں کے درمیان سرحد پار دریاؤں کے بہاؤ اور پانی کے انتظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ دیگر اقدامات میں اٹاری بارڈر کی بندش، ویزا کی منسوخی اور نئی دہلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد کو محدود کرنا شامل ہے۔

بھارت کی جانب سے یہ نام نہاد جوابی سخت اقدامات پاکستان کے حملے میں ملوث ہونے کے حوالے سے تحقیقات اور شواہد کے بغیر کیے گئے۔ بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے اپنے اعلامیے میں محض ’دہشتگرد حملے کے سرحد پار تانے بانے‘ کا ذکر کیا لیکن بھارتی میڈیا میں ایک منظم مہم چلائی جارہی ہے جس میں حملے کا الزام براہ راست پاکستان پر عائد کیا جارہا ہے۔

سب سے اہم وزیراعظم نریندر مودی نے حملے کے ذمہ داروں اور ان کے سرپرستوں کو ’ناقابلِ تصور سزا‘ کی دھمکی دی ہے۔ اس سے یہ قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں کہ بھارتی حکومت ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے کسی بڑی فوجی کارروائی کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

اس تمام تر صورت حال نے 2019ء کے بالاکوٹ واقعے کی یادیں تازہ کردی ہیں کہ جب بھارتی طیاروں نے پاکستان کی سرحدی حدود میں دراندازی کی کوشش کی اور عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی۔ پاکستان نے جموں میں اس ایئر اسٹرائیک کا جواب دیا تھا۔ تاہم بحران دوست ممالک کی مدد سے اس وقت حل ہوگیا تھا کہ جب پاکستان نے اس بھارتی پائلٹ کو رہا کیا جس کے جہاز کو پاکستان کی سرحدی حدود میں مار گرایا گیا تھا۔

23 اپریل کو بھارت کی........

© Dawn News TV