کراچی کے شپاٹر!
کراچی کی بڑی شاہراہوں پر گاڑی چلانے والے اکثر ڈرائیوروں نے یہ منظر بارہا دیکھا ہے، خاص طور پر ویک اینڈ کی راتوں اور سرکاری تعطیلات پر، پیچھے سے تیزی سے قریب آتی ہوئی ایک ’ایسی موٹر سائیکل جس پر کوئی سوار نہ ہو‘۔
ابتدا میں وہ ریئر ویو مرر میں محض ایک دھندلا سا سایہ ہوتی ہے۔ پھر جیسے جیسے وہ قریب آتی ہے، ڈرائیور کو آخرکار ایک نوجوان نظر آتا ہے جو پوری موٹر سائیکل پر چپکا ہوا لیٹا ہوتا ہے، اس کی آنکھیں ہینڈل کے عین اوپر سے سڑک کو گھور رہی ہوتی ہیں، اسپیڈومیٹر غائب ہوتا ہے، بازو جسم کے ساتھ جکڑے ہوتے ہیں یا تو ہینڈل کو مضبوطی سے تھامے ہوئے یا بعض اوقات سائڈ پر سسپنشن کو پکڑ کر، کاندھوں کی مدد سے ہینڈل کو موڑتے ہوئے۔ ٹانگیں یا تو بالکل سیدھی لیٹی ہوتی ہیں یا ٹخنوں پر قینچی کی طرح جڑی ہوتی ہیں، پورا جسم ہوا کی رفتار کو کم کرنے والی پوزیشن میں جکڑا ہوا ہوتا ہے۔
زیادہ تر ڈرائیور جانتے ہیں کہ ایسی موٹر سائیکل کا سامنا ہو تو انہیں کیا کرنا چاہیے: اپنی لائن برقرار رکھیں، دائیں جائیں نہ بائیں۔ اچانک بریک نہ لگائیں۔ اسٹیئرنگ نہ موڑیں۔ تقریباً ہر بار، موٹر سائیکل سوار آخری لمحے میں مڑتا ہے، گاڑیوں کے درمیان سے زِگ زیگ کرتا ہوا نکل جاتا ہے اور پلک جھپکتے ہی غائب ہو جاتا ہے۔
لیکن یہ شاذ و نادر ہی اکیلا ہوتا ہے۔ اس کے فوراً بعد ایسی ہی کئی موٹر سائیکلوں کا جھنڈ آتا ہے، جو ہر سمت سے گزر جاتا ہے، ڈرائیوروں کو اسٹیئرنگ وہیل مضبوطی سے پکڑنے اور دل ہی دل میں دعائیں مانگنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ موٹر سائیکل سواروں کی سلامتی کے لیے بھی اور اپنی جان کے لیے بھی۔ اس برق رفتاری پر معمولی سی غلطی، اچانک لین بدلنا، گھبراہٹ میں بریک لگانا، لمحہ بھر کی ہچکچاہٹ۔ نہ صرف موٹر سائیکل سوار بلکہ سڑک پر موجود کسی بھی شخص کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ سوار زیادہ تر کم عمر اور نوجوان ہوتے ہیں۔ ان کے پاس حفاظتی سامان کے نام پر صرف آنکھوں پر لگے گوگلز ہوتے ہیں، تاکہ گرد و غبار سے نظر دھندلی نہ ہو۔ ان کی موٹر سائیکلیں بالکل برہنہ ہوتی ہیں، تیزرفتاری کی غرض سے ہر غیر ضروری پرزہ ہٹا دیا جاتا ہے۔
کراچی کی سڑکوں پر انہیں ایک ہی نام سے جانا جاتا ہے، شپاٹر۔
اس لفظ کے اصل اور درست معنی واضح نہیں تاہم کراچی کے تجربہ کار موٹر سائیکل ریسرز کے مطابق یہ غالباً ’شارپ‘ اور ’فنٹر‘ (مقامی طور پر punter کا بگڑی ہوئی شکل) کا مجموعہ ہے، جس سے مراد کم عمری میں دو پہیوں پر غیر معمولی مہارت دکھانے والا فرد ہے۔
یہ اصطلاح 1990 کی دہائی سے رائج ہے اور بعض اوقات اسے سیاسی طاقت اور چھوٹے جرائم سے بھی جوڑا گیا، اگرچہ ریسرز اس تصور کو اب غیر متعلق سمجھتے ہیں۔
24 سالہ محمد طارق جو طارق 180 کے نام سے مشہور ہیں، نے بتایا کہ ’ہم میں سے زیادہ تر محنت کش لوگ ہیں، جو ریسنگ کے شوقین ہیں‘۔ مضبوط جسامت کے حامل طارق ایک ماہر مکینک بھی ہیں اور اب اپنی ورکشاپ چلاتے ہیں۔ انہوں نے 2009 میں اسکول چھوڑ کر بطور اپرینٹس کام شروع کیا تھا۔
طارق ریسنگ کی دنیا میں موٹرسائیکل پر وہیلی کرنے سے داخل ہوا۔
طارق نے بتایا کہ’ 14-2013 میں، میں نے CB 180cc بائیک خریدی، جس کے بعد مجھے 180 کا نام ملا‘۔ تاہم طارق کو اپنے بیشتر ہم عصروں پر ایک نمایاں برتری حاصل ہے۔ وہ صرف سوار نہیں بلکہ استاد بھی ہیں، ایک ایسا ماہر مکینک جو موٹر سائیکل کے ہر پرزے کو سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ کسی خاص ریس کے لیے اسے کس طرح بہترین بنایا جائے۔
لیکن ایک نوجوان ایسا بھی تھا، جس نے محض اپنی رائیڈنگ مہارت کے بل پر کراچی کے اس غیر قانونی ریسنگ سرکٹ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کی سب سے مشہور ریس جو اس کی آخری بھی ثابت ہوئی آج بھی معما بنی ہوئی ہے اور شاید یہی........





















Toi Staff
Sabine Sterk
Penny S. Tee
Gideon Levy
Waka Ikeda
Grant Arthur Gochin
Tarik Cyril Amar
Rachel Marsden