سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا قانونی پہلو
بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے بزدلانہ واقعے کے فوراً بعد پاکستان نے انتہائی واضح انداز میں اس واقعے کے ذمہ داروں سے خود کو الگ کر لیا۔
تاہم بھارت مسلسل اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ یہ واقعہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر پاکستانی ریاست کی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا حالانکہ اس دعوے کے حق میں نہ تو کوئی ثبوت منظر عام پر لایا گیا اور نہ ہی اسے پاکستان سے شیئر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت کا یہ عمل بدنیتی پر مبنی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کو اپنے الزامات کی بنیاد پر معطل رکھنا 1969 کے ویانا کنونشن کی شق 26 کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو یہ کہتی ہے کہ معاہدے ’نیک نیتی سے انجام دیے جانے چاہئیں‘۔
سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل رکھنا پاکستان کی جانب سے ایک اعلان جنگ سمجھا جائے گا اور یہ اقدام پاکستان کے بنیادی قومی مفادات کے لیے تباہ کن ہے۔ پاکستان اپنی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زرعی شعبے کے لیے دریائے سندھ پر مکمل انحصار کرتا ہے۔ پاکستان کی آب پاشی کا 80 فیصد سے زائد انحصار سندھ طاس کے پانی پر ہے۔ پانی کی فراہمی میں خلل پہلے سے موجود پانی کی قلت میں مزید اضافہ کرے گا، فصلوں کی پیداوار میں کمی لائے گا اور خاص طور پر پنجاب اور سندھ جیسے پانی کی قلت سے متاثرہ صوبوں میں داخلی بےامنی کو جنم دے گا۔
ویانا کنونشن اور سندھ طاس معاہدے میں کسی معاہدے کو معطل رکھنے کی کوئی شق موجود نہیں۔ البتہ ویانا........
© Dawn News TV
