ٹرمپ-نیتن یاہو ملاقات: کیا آج اسرائیل غزہ امن معاہدے کے لیے رضامند ہوجائے گا؟
بہت سے لوگ گزشتہ ہفتے ہونے والی پیش رفت کے بعد سوچ رہے ہیں کہ کیا غزہ میں امن کی حقیقی معنوں میں امید ہے اور کیا آخر کار اسرائیلی قابض افواج کی تقریباً دو سال سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کا خاتمہ ہونے والا ہے؟ ان سوالات کا جواب آج ہمیں مل سکتا ہے۔
اس سے قبل کئی بار کی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قریبی دوست، کاروباری شراکت دار اور خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے کہا ہے کہ غزہ میں امن کا امکان اب پہلے سے کہیں زیادہ روشن نظر آرہا ہے۔ لیکن ماضی کے مقابلے میں اب کی بار کیا مختلف ہے کیونکہ ماضی میں ان کی امیدوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔
میرے خیال میں اس معاملے میں اہم موڑ کے طور پر دو واقعات کو دیکھا جاسکتا ہے۔ پہلا وہ ہے جب اسرائیل نے قطر کی سرزمین پر حماس کے مذاکرات کاروں کو نشانہ بناتے ہوئے میزائل حملہ کیا (حالانکہ وہ انہیں قتل کرنے میں ناکام رہا)۔
کچھ مبصرین نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے کہ امریکا جسے خطے میں اپنی سب سے بڑے فوجی اڈے کی میزبانی کرنے والے قطر کو مؤثر دفاعی نظام کے ذریعے میزائلز سے تحفظ فراہم کرنا چاہیے تھا، اسے اس حملے کے بارے میں پہلے سے بتائے جانے کے بجائے آخری وقت میں اسرائیل نے مطلع کیا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ اسرائیل، حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا، اس لیے امریکا کو عوامی طور پر اس حملے سے خود کو الگ کرنا پڑا۔ اگرچہ واشنگٹن نے اپنے اتحادی پر حملے کی مذمت کی، تاہم اس کا ردعمل غیر واضح رہا کیونکہ اس نے اسرائیل کے اس ’حق‘ کو تسلیم کیا کہ وہ اپنے دشمنوں کو کہیں بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔
اس پر عرب ممالک کا........
© Dawn News TV
