2سو کا پھندہ
عنوان سے آپ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ ملک میں پھندے اتنے سستے ہو گئے ہیں۔ یہ قصہ کچھ اور ہے۔ مجھے ایک پروفیسر صاحب کے گھر جانا تھا جن کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ کئی دنوں سے صاحبِ فراش ہیں۔ سخت گرمی اور حبس کے باوجود میں اور پروفیسر نعیم اشرف نے فیصلہ کیا کہ جانا چاہیے۔ ہم ان کے گھر پہنچے تو اس وقت بھی درجہ حرارت بدستور زیادہ تھا اورپتہ بھی چل رہا تھا ۔ہم نے دروازے پر لگی بیل کا بٹن دبایا،لیکن اس کے اندر بجنے کی آواز نہیں آئی۔ میں نے نعیم اشرف کی طرف دیکھا ، وہ میری بات سمجھ گئے اور گیٹ پر اپنی گاڑی کی چابی سے زوردار دستک دی۔ چند لمحوں بعد گیٹ کھلا تو سامنے پروفیسر صاحب کھڑے تھے۔ انہوں نے بنیان پہن رکھی تھی، اس کے باوجود پسینے سے شرابور تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ ٹیوشن نہیں پڑھاتے اور صرف تنخواہ پر گزارا کرتے ہیں اس لئے انہیں بنا بتائے چلے آئے۔ وہ ہمیں دیکھ کر یکدم پریشان سے ہو گئے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ہمیں گیٹ سے ہی واپس بھیج دینا چاہتے ہوں لیکن کہہ نہیں پا رہے تھے۔ میں نے کہا آپ کی ناسازئی طبع کا سنا تھا۔ بس احوال پوچھنے آئے ہیں۔ اچھی خاصی بے تکلفی کے باوجود اس دن وہ بہت کھنچے کھنچے سے نظر آئے۔ خےر ہم دونوں بھی یوں کھڑے تھے جیسے عیادت کرنے نہیں چھاپہ مارنے آئے ہوں۔ انہوں نے دبے دبے لفظوں میں کہا اندر گرمی ہے، بجلی کا مسئلہ ہے، نعیم اشرف فوراً بولے کیالوڈشیڈنگ ہے، کب تک آئے گی۔ ہمارے تیور دیکھ کر وہ سمجھ گئے ٹلنے والے نہیں۔ ”اندر آﺅ بتاتاہوں“، وہ ہمیں طوعاً و کرہاً اندر لے گئے ۔ اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا، ہمیں یوں لگا جیسے وہ سنجیدگی........
© Daily Pakistan (Urdu)
