menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

  ابو کی یاد میں!                     (آخری قسط)

20 0
monday

dr numan sidique

ایک دنیا اُن (عرفان صدیقی) کے کالم اور تحریروں کی مداح ہے۔ اِن تحریروں میں ادب کی چاشنی بھی تھی، شائستگی اور نرمی میں پروئے ہوئے الفاظ کے ساتھ دلائل کی وہ قوت تھی کہ دوسرے کو پاش پاش کردے۔

اعلیٰ معیار کی یہ تحریریں اور کالم پڑھ کر تو لگتا ہے کہ جیسے یہ کسی الگ تھلگ کمرے میں بیٹھ کر لکھا گیا ہوگا، جہاں سکون ہوگا، جہاں کوئی آواز نہ ہوگی اور جہاں کسی کا دخل نہ ہوگا مگر ایسا ہرگز نہ تھا۔ چاہے کالم ہو یا کوئی بھی تحریر، وہ اپنے بستر پر نیم دراز ہوکر اِس حالت میں لکھتے تھے کہ آس پاس ہم سب کا آنا جانا بھی لگا ہے، ہم آپس میں بات بھی کر رہے ہیں، ٹی۔وی بھی آواز کے ساتھ لگا ہے، بچے شور بھی کررہے ہیں اور ابو خود بھی بات چیت میں حصہ لے رہے ہیں۔ مگر تعجب ہے کہ تحریر کے معیار، الفاظ کے چناؤ اور ان کے بہاؤ پر اس ماحول کا زرا سا بھی اثر نہیں ہوتا تھا۔ یہ اُن کی خداد داد صلاحیتوں کی ایک جھلک ہے۔

ضلع کرم میں پولیس پوسٹ پر خوارج کا حملہ، 2 پولیس اہلکار شہید، 4 دہشتگرد ہلاک

لکھنے لکھانے سے اُن کو اتنا لگاؤ تھا اور اپنے کام سے اتنی وفا تھی کہ جب تک ہاتھوں اور ذہن نے ساتھ دیا وہ لکھتے رہے۔ اپنا آخری کالم انہوں نے اپنی وفات سے چند دِن قبل ICU کے بستر پر بیٹھے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور ارشد ملک صاحب سے اس کی نوک پلک درست کرنے کے لئے فون پر بات بھی کی۔اپنے بچپن سے اپنی زندگی خود بنانے اور سنوارنے کی جو دھن تھی وہ کبھی کم نہ ہوسکی۔ زندگی کے کسی مقام پر محنت، لگن اور ریاضت کا سفر کبھی رُکا نہیں، تھما نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آخری دم تک اُن کی زندگی کسی پر منحصر نہیں رہی۔ اِس بات پر ان کو خود بھی فخر تھا۔ ابو ہی کا ایک شعر ہے:

وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی چینی سفیر سے ملاقات

یہ میرے خدائے کریم ہی کا کرم ہے عرفاں کہ عمر بھر

نہ........

© Daily Pakistan (Urdu)