”معاشرتی تضادات کا کوئی حل ہے کیا؟؟“
وہ اسی ضلع میں پہلے بھی سرکاری فرائض سر انجام دے چکا تھا۔ دوبارہ تعیناتی ترقی کے بعد ہوئی تھی۔ تقریباً دو دہائی پہلے وہ دور جوانی بلکہ نوجوانی میں بھی یہاں اک عرصہ بتا چکا تھا۔ اکثریت کو جانتا تھا۔ کافی لوگ رابطے میں رہے تھے۔ سامنے کھڑا جوان اہلکار بھی شناساتھااگرچہ کبھی ٹرانسفر کے بعد رابطے میں نہیں رہا تھا۔وہ جانتا تھا کہ لڑکا تعلیم یافتہ ہے۔دفتری معاملات کی سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔ جب سے دوبارہ تعیناتی ہوئی تھی، اہلکار اخلاقی میسجز موبائل پر بھیجتا تھا۔ میسجز قابل قدر ہوتے تھے۔ شاید اسی لئے وہ بالکل سمجھ نہ پایا کہ اہلکار کیا کہہ رہا ہے؟ اور کیوں کہہ رہا ہے؟ وہ ایک ہی رٹ لگائے جا رہا تھا:”جناب میں کہہ رہا ہوں تو آپ دستخط کر دیں۔وجہ سمجھنے کی کوشش کریں“۔اصرار عجب تھا تو لہجہ عجیب ترین۔اسے مخاطب کی عزت کرنے کی عادت تھی، سدا سے تھی۔ وہ اپنی عادات تبدیل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن لیکن آج اسے اپنا فیصلہ غلط لگ رہا تھا۔اہلکار کا لہجہ بار بار تبدیل ہو رہا تھا۔اسے دل پشوری کرنے کی عادت تھی۔لیکن دل پشوری سے جلد ہی دل بھر گیا، غصہ آ گیا۔ جوان کو کہا:”تشریف لے جاؤ، اس سے پہلے کہ تمہاری انکوائری کے آرڈر کر دوں، کسی معقول آدمی کو بھیجو“۔ بھانت بھانت کے لوگوں سے ملنے کا، انسانوں کے بدلتے روپ دیکھنے کا شوق تھا اور کئی سالوں سے وہ یہی کر رہاتھا۔ آج اسے ہوئی شدید حیرت، بیدار ہونے لگی افسرانہ غیرت۔بڑی مشکل........





















Toi Staff
Penny S. Tee
Sabine Sterk
Gideon Levy
John Nosta
Mark Travers Ph.d
Gilles Touboul
Daniel Orenstein