menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

    ہومیوپیتھی۔ ایک متبادل طریقہ علاج

20 0
friday

بیماری ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر واسطہ پڑتا ہے۔اِس کے حل کے لئے کوششیں بھی اتنی ہی پرانی ہیں جتنی بیماری۔ قدیم دور میں انسان نے بیماریوں کا علاج دھاتوں اور جڑی بوٹیوں میں ڈھونڈا۔ آج بھی جو دوائیاں کسی بھی طریقہ علاج میں بن رہی ہیں اُن کی بنیاد یہی ہے، بہت کم لوگوں کو اِس کا احساس ہو گا کہ جو مصالحے ہم اپنے کھانے کو لذیذ بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں دراصل اِن میں بہت سی بیماریوں کا علاج ہے اور اِن مصالوں کا استعمال پڑھے لکھے حکما نے شروع کرایا تھا۔ یونانی طبیب آج بھی انہی جڑی بوٹیوں سے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں لیکن اب یونانی طب ریسرچ کے فقدان کی وجہ سے بڑی حد تک متروک ہو چکی ہے اب ایلوپیتھی ہی بہترین طریقہ ئ علاج کے طور پر رائج ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہومیوپیتھی طریقہئ علاج بھی مفید ہے دونوں کا ظہور یورپ میں ہوا لیکن کچھ کم علمی اور غلط فہمیوں کی وجہ سے ہومیوپیتھی زیادہ مقبول نہیں ہے۔

دہشت گردی کسی کی ایما ء پرہوتی ہے اور اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ فرقہ واریت کی آڑ میں دینی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کو مروا دیا جائے

مجھے 1980ء میں گلے کی ایک بیماری سے واسطہ پڑ گیا جسے Fharyngitis کہتے ہیں۔ میں مختلف ڈاکٹروں سے اِس کا علاج کرواتا رہا انگریزی طریقہ ئ علاج میں اس کی دوا اینٹی بائیوٹک ہے چونکہ یہ ایک زخم ہے اور پھر یہ پھیلتا جاتا ہے لیکن اینٹی بائیوٹک سے وقتی طور پر تو فائدہ ہو جاتا ہے لیکن بیماری ختم نہیں ہوتی۔ وقت گزرتا گیا مجھے ایک میڈیکل کے سٹوڈنٹ نے بتایا کہ دراصل اس بیماری کا کوئی علاج نہیں لیکن ڈاکٹر حضرات آپ کو یہ بات نہیں بتائیں گے۔ اسلام آباد میں قیام کے دوران ایک دوست مجھے ممتاز مفتی کے پاس لے گئے۔ مفتی صاحب علم و ادب کے علاوہ ہومیوپیتھی میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور مفت علاج کرتے تھے۔ یوں میرا اس طریقہئ علاج سے تعارف ہوا پھر میں فیصل آباد چلا گیا وہاں میرے دفتر کے قریب ایک ہومیو........

© Daily Pakistan (Urdu)