جشن آزادی!
پاکستان کا 78 واں یوم آزادی پورے جوش و خروش اور ولولے سے منانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ سرکاری سطح پر اربوں روپے اس مقدس دن کو منانے کے لئے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ کروڑوں روپے کے اشتہارات جاری ہو رہے ہیں۔ بازار سج چکے ہیں، جھنڈیاں، چھوٹے بڑے پاکستانی پرچم، چھاتی پر لگانے کے لئے پاکستانی جھنڈے،پاکستانی پرچم کے رنگوں والے کپڑے فروخت ہو رہے ہیں۔ غرض ہر طرف جشن کا سماں ہے، لیکن یہ سب کچھ تو پاکستان کی ”اشرافیہ اور بچی کھچی مڈل کلاس“یعنی سفید پوش طبقے کے بچوں کو میسر ہے، لیکن جو مناظر لاہور کی بستی ہربنس پورہ میں دیکھنے کو ملے۔ انہوں نے سمجھایا کہ اصلی پاکستان تو یہ ہے۔ ہربنس پورہ کی غریب آبادی کے بچوں کا ایک ”گروپ“ جس انداز میں ”ڈھول بجاتا جھنڈے لہراتا“ گلیوں سے نکل کر رِنگ روڈ کی سروس روڈ پر برآمد ہوا اس کو دیکھ کر ”سمجھ آ گیا“ کہ ہم کس ”غریب ملک“ میں رہتے ہیں۔ ابھی تک سمجھ نہیں آرہا کہ جو منظر دیکھا وہ کسی آزادی کے جشن کے ہیں، کسی خوشی کے اظہار کے ہیں یا غربت اور افلاس میں سانس لینے والی اس مجبور آبادی کے معصوم کمسن بچوں کی مجبوری، بے بسی کے ہیں۔
ججوں کی تقرری، ترقی اور تبادلوں میں وزیر اعظم کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے وکلاء کو جج نہ لگایا جائےیہ وہ بچے تھے جن کے پاس جشن آزادی منانے کا سامان بھی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود پھٹے پرانے ادھڑے ہوئے کپڑوں، ٹخنوں سے اونچی گھٹنوں سے پھٹی شلواروں میں ملبوس یہ بچے جن میں اکثر کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے اگر تھے تو ٹوٹے ہوئے پلاسٹک چپل، مگر ان کا........
© Daily Pakistan (Urdu)
