فتح مکہ
ان کی آنکھوں میں دیدارِ کعبہ کی حسرت مچلی ہوئی تھی۔ پرجمال جبینوں میں حیرت خیز حد تک شکر گزاری کی امواج کا تلاطم برپا تھا۔ رسول اللہ اپنے ذی شانِ صحابہ ؓ کی جلو میں مکہ عمرے کی ادائی کے لئے روانہ ہوئے۔ رسول اللہ کی آمد سے ، مکہ میں اسلام کی بجلیاں کڑک اُٹھیں۔ کفر کی بدلیاں کانپ کانپ گئیں۔ اہل ِ کفار وحشت زدہ آہو کی مانند مکہ سے باہر چلے گئے۔ جب اہل ِ کفار نے مسلمانوں میں تفاخر کو نہ دیکھا، ان میں سادگی کو پایاتو چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ کہنے لگے مسلمان تو تنگ دست ہیں۔ مصیبتوں کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ان کی خستہ حالی ان کے چہروں پہ لکھی ہے۔ وہ مسلمانوں کی حالت ِ زار پہ افسوس کرنے لگ گئے۔ خود پہ نازاں ہوتے ہوئے ڈینگیں مارنے لگے کہ ہم ایک قوت ہیں۔ قوت ہی دنیا کی حقیقت ہوتی ہے۔
سکول ٹرپ کے دوران 5 کلاس فیلوز کی 13 سالہ لڑکے سے اجتماعی زیادتیعمرے کی ادائیگی کے بعد جب رسول اللہ نے میمونہ بنت ِ حارث سے نکاح فرمایا۔ مسلمان دو خوشیوں سے نہال ہو گئے۔ رسول اللہ نے اہل ِ مکہ کو اس خوشی میں شریک کرنے کی خاطر انہیں کھانے کی دعوت دی۔ تو اہل ِ کفار نے نخوت و کبر میں یہ کہتے ہوئے دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ ہمیں کمزور و ناتواں مسلمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم لوگ اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر مصائب کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہو۔وہ مسلمانوں پر استہزاءکرتے۔ یہ کہتے ہوئے مسلمانوں کی قوت کا مذاق اڑاتے رہے کہ یہ تو وہ ناقہ ہے، جس کے تھن خشک ہو چکے ہیں،جو دودھ دینا بھول چکی ہے اور ہم، حیرہ و ہرقل و شاہان کسریٰ کے ہم محفل ہیں۔ ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ہیں۔ جب چاہیں مسلمانوں کو جلا کر خاکستر کر سکتے ہیں۔
3 دن واشنگٹن اور 2 دن نیویارک میں کتنی میٹنگز کیں۔۔۔؟ شیری رحمٰن نے حیران کن تفصیلات شیئر کر دیں ........© Daily Pakistan (Urdu)
