بھارتی جنگی جنون اور ایٹمی پاکستان
برصغیرمیں باہر سے آنے والی قوتوں نے ایک لمبا عرصہ یہاں حکمرانی کی ہے۔ مختلف ادوار میں یہاں کے عوام مسلط حکومتوں کو گرا کر اپنے باسیوں کی حکومت کے قیام کی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔ سوری، مغل، تغلق اور رنجیت سنگھ کی حکومتیں یہاں قائم رہیں جبکہ آخر میں برطانوی سامرا ج،جس کا پوری دنیا میں طوطی بولتا تھا نے بھی ظلم و ستم کے ذریعے لمبا عرصہ اپنا اقتدار برقرار رکھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی حکمران کمزور ہوئے تو برصغیر میں بھی ان کے خلاف آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔ برطانوی حکومت نے آزادی برصغیر کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے خلفشار کو ختم کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کردیا۔ اسی طرح ہندوؤں کے متعصبانہ اقدامات کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا وجود اور مذہب خطرے میں محسوس ہوا تو ان کے اندر بھی ’لا الہ الا اللہ‘ کی بنیاد پر ایک خود مختارمسلم مملکت کا جذبہ امڈ آیا تو پاکستان 1947ء میں معرض وجود میں آگیا۔ اس کے سرحدی اور نظریاتی خطوط بھی واضح کر دیے گئے۔یہ اسلام کے نام اور نظریات پر مشتمل نئی مملکت ہے،جس کے سرحدی تحفظ کی ذمہ داری افواج پر عائد ہوتی ہے۔ جبکہ نظریاتی سرحدوں کی ذمہ داری دینی طبقے کی ہے۔اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے21 تا 24 جنوری 1951ء چار روزہ اجلاس میں سنی شیعہ اہل حدیث دیوبندی مکاتب فکر کے 31 علماء نے 22 نکات پر اتفاق کرکے اسلامی مملکت کے خدوخال پیش کردیے۔ مگر ایک مملکت جو اسلام کے نام پربنی سامراجی سازش کے تحت مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئی۔ خاص طور پر مارشل لاء حکومتوں کے دوران ہرمسلک نے مشترکہ میراث اسلام کی بجائے اپنے اپنے فرقے کا نقطہ نظر نمایاں کرنا شروع کردیا اور نئی تشریحات میں اپنے علاوہ کسی کو مسلمان سمجھنے سے گریزاں ہونے لگے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں فرقہ واریت اور نفرت نے جگہ بنانا شروع کردی۔ میری توجہ اس پر نہیں کہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش کیوں بن گیا اور باقی ماندہ ملک انتشار کی آماجگاہ کیوں بن گیا۔ مجھے ان دنوں کے حالات کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کیونکہ افواج........
© Daily Pakistan (Urdu)
