شاہد حسین بخاری
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات سے ظاہر ہے کہ وہ تجارت کو بہت سے مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مئی کی چار روزہ پاک بھارت جنگ کے دوران تجارت ہی کو جنگ بند کرانے کا ذریعہ بنایا جبکہ کئی اور ملکوں کی جنگیں بندکرانے یا ہونے سے قبل ہی رکواکر جانی ومالی نقصانات سے دنیا کو بچانے کے دعویدار ہیں۔کچھ عرصہ قبل آنیوالے انکے ایک بیان سے ظاہر ہے کہ انہوں نے ایک اور انڈیا پاکستان جنگ کواس کےشروع ہونے سے پہلے ہی رکوانے میںکردارادا کیاہے۔بہ قول انکے انہوں نے کم ازکم آٹھ جنگوں کی ہلاکتوں اور تباہیوں سے کرہ ارض کو بچانے کیلئے تجارت کو آلے کے طور پر استعمال کیا۔ وہ ایک سپر پاور کے سربراہ ہیں۔ اس حیثیت سے ان پریہ ذمہ داری عائد بھی ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو جنگ کی ہولناکیوں سے بچانے میں کردار ادا کریں اور انہوں نے یہ کردار نبھایا بھی ہے۔ اسی لئے پاکستان کی طرف سے نوبل امن انعام کیلئے ان کا نام دیا گیا تھا مگر فنی وجوہ ( شاید مقررہ وقت کے بعد تجویز آنے کے باعث یا کسی اور سبب سے) یہ تجاویز اور نامزدگیاں مطلوب نتائج نہیں دے سکیں۔ انکی مدت صدارت کے کئی برس ابھی باقی ہیں اور انکی امن کوششیں جاری رہیں تو کئی اعزازات کے ساتھ نوبل پیس تمغہ بھی انکے نام ہونے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا جبکہ دنیا بھر، بالخصوص مشرق وسطیٰ کے ملکوں، کی یہ خواہش ہے کہ انہوں نے اسرائیل اور حماس کوامن سمجھوتے پر دستخط پر آمادہ کرکے جو بڑی کامیابی حاصل کی، وہ انکی اپنی نگرانی میں قائم انتظامیہ اور امن دستوں کی تعیناتی کے ذریعے عملاً پوری طرح نافذ نظرآئے اور اسرائیلی قیادت کو باور کرایا جائے کہ بس بہت ہوگیا ، آئے روز انسانی خون سے ہولی کھیلنے کاسلسلہ اب برداشت نہیں ہوگا۔
یہ تمہید اس لئے باندھی گئی کہ صدر ٹرمپ کا تجارت کو دوطرفہ فائدے کا ذریعہ بنانے کا تصور انکی انتظامیہ کی پالیسیوں اور بعض سفارتی بیانات سے بھی نمایاں ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں معاونت کے حوالے سے آنیوالا ایک سفارتی بیان اس کی خوبصورت مثال ہے۔ پاکستان کے معدنی ذخائر دولاکھ 30ہزار مربع میل پر پھیلے........





















Toi Staff
Sabine Sterk
Penny S. Tee
Gideon Levy
Waka Ikeda
Grant Arthur Gochin
Beth Kuhel