عطا ء الحق قاسمی
پیارے قارئین!سردیاں آتے ہی انسان کے دل میں ایک عجیب سی خواہش جاگ اٹھتی ہے کہ چلو آج بادام کھا لیتے ہیں، کل کاجو چکھتے ہیں، پرسوں پستہ آزماتے ہیں اور مہینے کے آخر میں بجلی اور گیس کے بل دیکھ کر ہاتھوں سے سر پکڑ لیتے ہیں۔سردیوں میں ڈرائی فروٹ خریدنے کا تصور ہی ایسا ہے جیسے آپ اپنی جیب کے ساتھ جنگ لڑنے جا رہے ہوںاور شکست بھی یقینی ہو۔ڈرائی فروٹ کی قیمتیں سن کر ایسا لگتا ہے کہ یہ چیزیں درختوں پر نہیں، اقوام متحدہ کی عمارت میں اُگتی ہیں۔ بادام کا ریٹ سن کر طبیعت یوں مکدر ہوتی ہے جیسے کسی نے اچانک بتا دیا ہو کہ آپ کا ابھی ابھی چالان ہو گیا ہے۔کچھ دن پہلے میں خود اپنے گھر کیلئے ڈرائی فروٹ خریدنے گیا۔ دکان میں داخل ہوا تو دکاندار نے ایسے دیکھا جیسے میں اس کے تمام قرضے واپس کرنے آیا ہوں۔پوچھا: ’’بھائی! بادام کتنے کے ہیں؟وہ مسکرایا... ایسی مسکراہٹ جیسے کوئی سیاسی لیڈر عوام سے وعدہ کرتا ہے کہ مہنگائی ختم کر دوں گا۔کہنے لگا: سر! بس عام سے بادام ہیں... ایک ہزار آٹھ سو روپے پاؤ!۔ میں نے چونک کر پوچھا:’’بھائی! پاؤ مانگا تھا یا پلاٹ؟دکاندار نے کینڈل لائٹ جیسی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا:’’سر! دراصل یہ کیلی فورنیا والے بادام ہیں۔‘‘میں نے عاجزی سے کہا:’’بھائی! میں شادی نہیں کر رہا کہ آپ مجھے امریکہ سے رشتہ دکھا رہے ہوں۔ مجھے سیدھا سادہ پاکستانی بادام دکھا دیں... وہ بھی اگر کوئی غلطی سے اسٹاک میں آگیا ہو تو!‘‘پاکستانی بادام بھی ایسی قیمت پر ملے کہ مجھے اپنا سارا ماضی یاد آگیاوہ بھی ڈیٹیل کے ساتھ۔پھر میں نے کوشش کی کہ چلو کاجو پوچھ لیتے ہیں۔ شاید قسمت مہربان ہو جائے۔کاجو کتنے کے ہیں؟’’اس نے دراز سے ایک خوبصورت سے ڈبّے میں سے کاجو نکالے جیسے کسی نیک روح کا جنازہ دکھا رہا ہو۔اور پھر کہا:’’سر یہ پریمیم کاجو ہیں۔ تین ہزار روپے پاؤ‘‘میں نے جواب دیا:یعنی ایسے کاجو ہیں جنہیں کھا کر انسان خود کو امیر سمجھنے لگے؟دکاندار نے ہنستے ہوئے کہا:’’سر! پریمیم چیزیں مہنگی تو ہوتی ہیں ناں!‘‘ میں نے........





















Toi Staff
Sabine Sterk
Penny S. Tee
Gideon Levy
Waka Ikeda
Grant Arthur Gochin
Rachel Marsden