menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

ڈاکٹر بلال ظفر

21 4
30.11.2025

پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ وسائل کہاں سے آئیں اور کہاں خرچ ہوں۔ اس مقصد کیلئے وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کیلئے قومی مالیاتی کمیشن جسے عرف عام میں این ایف سی ایوارڈ بھی کہا جاتا ہے، کا ڈھانچہ آئین میں موجود ہے، لیکن اس کا اصل مقصد آج تک حاصل نہیں ہو سکا۔ این ایف سی ایوارڈ کی روح یہ ہے کہ وفاق اپنی آمدنی صوبوں کو منتقل کرے تاکہ وہ عوامی فلاح اور ترقیاتی کاموں پر خرچ کر سکیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صوبوں نے یہ وسائل آگے ضلعی اور مقامی حکومتوں کو منتقل کرنے کے بجائے اپنے ہی دائرہ اختیار میں سمیٹ لیے ہیں۔جب 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو مزید اختیارات ملے تو توقع کی گئی تھی کہ مقامی حکومتوں کو بھی اس عمل سے فائدہ پہنچے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ صوبائی حکومتیں وسائل کو نیچے منتقل کرنے کے بجائے زیادہ تر اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شہری سہولیات، تعلیم، صحت، صفائی، پینے کے پانی اور مقامی ترقی کے منصوبے بری طرح متاثر ہوئے۔ عوام براہ راست جن اداروں سے سہولت چاہتے ہیں، یعنی یونین کونسل یا میونسپل ادارے، وہ مالی طور پر مفلوج ہیں۔

حالیہ دنوں میں صدر آصف علی زرداری نے 22 اگست 2025 ءکو گیارہویں این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کیا ہے، جس کا پہلا اجلاس دسمبر میںوفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں ہونے جا رہاہے۔ اس کمیشن میں چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ کے ساتھ ہر صوبے سے ایک تکنیکی رکن شامل کیا گیا ہے۔ پنجاب سے سابق بیوروکریٹ ناصر محمود کوٹھہ، سندھ سے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اسد سعید، خیبر پختونخوا سے ڈاکٹر مشرف رسول سیان، اور بلوچستان سے ابتدا میں فرمان اللہ کو نامزد کیا گیا تھا مگر بعد میں صدر نے محفوظ علی خان کو بلوچستان کی نمائندگی کیلئے منظور کر لیا۔ اس نئی تشکیل میں ٹیکس آمدنی کی تقسیم، گرانٹس، قرضہ جات کے اختیارات اور صوبائی و وفاقی اخراجات کے تناسب جیسے اہم معاملات طے کیے جائیں گے۔

اس........

© Daily Jang