مجید اصغر
آئین کسی بھی ملک کے وجود کی شناخت اور اسکے مختلف النوع معاملات و سائل کے حل کی مقدس دستاویز ہے۔ ملک کے انتظامی، سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنے کیلئے اس سے رجوع کیا جاتا ہے۔ اور دوسری قوموں سے تعلقات بھی اسی کی منشا کے مطابق استوار کئے جاتے ہیں۔ گویا آئین ملک کے تمام مسائل کا حل ہے مگر بدقسمتی سے یہاں خود آئین کو ایک مسئلہ بنادیا گیا ہےاور ہر حکمران نےاسکے ساتھ کھلواڑ کیا۔ قائداعظم کے دنیا سے جلد چلے جانےکے بعد اقتدار کی دھما چوکڑی شروع ہوگئی اور قیام پاکستان کے طے شدہ مقاصد دھرے کے دھرے رہ گئے۔ انگریزوں کی پروردہ بیورو کریسی کی اشرافیہ نے 9سال تک ملک کو سرزمین بے آئین رکھا کیونکہ انگریزوں کے سامراجی قوانین ان کو اقتدار کے بہتر مواقع فراہم کرتے تھے ، خدا خدا کر کے 1956ءمیں ایک بیورو کریٹ وزیراعظم نے ملک کو آئین دیا ابھی اس پر عملدرآمد بھی نہیں ہو اتھا کہ ایوب خان نے بیوروکریٹ صدر کی مدد سے اقتدار پرقبضہ کر کے مارشل لا لگادیا اور یہ آئین منسوخ کردیا گیا۔ اپوزیشن کے شور و غوغا اور قوم کے احتجاج پر قابو پانے کیلئے 1962ءمیں ایک اور آئین متعارف کرایا گیا۔ جسے بابائے جمہوریت نوازبزادہ نصرا للہ خان نے لائل پور (اب فیصل آباد) کا گھنٹہ گھر قرار دیا تھا۔ کیونکہ اسے جس سمت سے بھی دیکھو ایوب خان ہی نظر آتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوگئی تو ایوب خان اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرکے گھر چلے گئے۔ یحییٰ خان نے 1962ءکے آئین کو منسوخ کرکے نیا مارشل لا لگادیا۔ انہی کے دور میں ملک دولخت ہوگیا۔ اس دوران عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان میں جیت گئے تھے۔ 1973ء میں انہوں نے ملک کا تیسرا لیکن متفقہ آئین بنایا۔ اسکی تدوین میں تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے حصّہ لیا اور اتفاق رائے پیدا کیا۔ قوم خوش ہوگئی مگر یہ خوشی چار سال بعد کافور گئی جب جنرل ضیاء الحق نے قائد........





















Toi Staff
Gideon Levy
Penny S. Tee
Sabine Sterk
John Nosta
Mark Travers Ph.d
Gilles Touboul
Daniel Orenstein