فرنود عالم
دراصل یہ تنظیم اس احساس سے دو چار ہے کہ وہ ناقابل شکست ہے۔ اس احساس نے اس دن جنم نہیں لیا جس دن سلمان تاثیر کے قاتل کو پھانسی دی گئی تھی۔ اس دن بھی نہیں لیا جس دن اسکے مظاہرین کو کڑک نوٹ دیکر گھر روانہ کیا گیا تھا۔اس احساس نے اس دن جنم لیا تھا جس دن ایک منتخب حکومت کو اسکے آگے سرنڈر کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہ سرنڈر یکبارگی ہوتا تو کسی طرح ہضم بھی کیا جاسکتا تھا، مگر ارطغرل ڈرامے کی طرح اس سرنڈر کا قسط وار سلسلہ پیش کیا گیا۔ پہلی قسط اس دن نشر ہوئی تھی جب اس پارٹی نے کہا کہ ہم حکومت کا دھڑن تختہ کرنے اسلام آباد جارہے ہیں۔ دوسری قسط اس دن نشر ہوئی جب اس کو فیض آباد پر بستر ڈالنے کیلئے تمام تر سہولتیں فراہم کی گئیں۔ کئی دن چلنے والے دھرنے میں جی میں جو آیا انہوں نے کہا۔ دھمکی تڑی گالم گفتار سب چلتا رہا۔حضرت صاحب کا لائیو خطاب ہر تین گھنٹے بعد سوشل میڈیا پر نشر ہوتا رہا۔ انہیں پانی کی کمی تھی نہ خوراک کا مسئلہ تھا۔ ٹھنڈ سے بچائو کیلئے ایرانی کمبل بھی پہنچا دیئے گئے تھے۔ بون فائر محفلیں بھی چل رہی تھیں۔ قرب و جوار میں برگر چنا چاٹ گول گپے سوپ اور چائے کی ریڑھیاں بھی لگادی گئی تھیں۔ متعین گاڑیاں متعین وقت پر دو وقت کا کھانا سہولت کے ساتھ پہنچا رہی تھیں۔ حالانکہ راستے اس ایمبولینس کیلئے بھی بند تھے جس میں ایک بیمار ماں آخری سانسیں لے رہی تھی۔
سرنڈر کی تیسری قسط وہ تھی جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو حکم دیا کہ بلوائیوں کے خلاف کارروائی کرکے فیض آباد کی ٹریفک بحال کی جائے۔ یہ حکم اسلئے بھی اہم تھا کہ فیض آباد شہہ رگ ہے۔اس پر کوئی پائوں رکھ دے تو زندگی رک جاتی ہے۔ اس پر سابق صاحب نے بقلم خود بیان جاری کرتے ہوئےکہا، یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں ہم انکے خلاف کارروائی کیسے کر سکتےہیں۔ یہ سنکر اس تنظیم کے کارکنوں نے احتجاج اور پھیلا........





















Toi Staff
Gideon Levy
Tarik Cyril Amar
Stefano Lusa
Mort Laitner
Ellen Ginsberg Simon
Sabine Sterk
Mark Travers Ph.d