محمد عرفان صدیقی
نیویارک کی چمکتی روشنیوں میں ڈوبا ہوا اقوام متحدہ کا وسیع و عریض ہال، جہاں دنیا کے بڑے بڑے رہنما اپنی نشستوں پر براجمان تھے۔ فضا سنجیدہ تھی مگر جیسے ہی اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو دروازے سے اندر داخل ہوئے تو ماحول یکسر بدل گیا۔ سینکڑوں نمائندے یک زبان ہو کر احتجاج بلند کرنے لگے، ہال نعروں سے گونج اٹھا، ’’قاتل ....فلسطینیوں کا قاتل!‘‘ کی صدائیں چاروں طرف سنائی دینے لگیں۔ یہ احتجاج اس قدر شدید تھا کہ قافلوں کی صورت میں سفیر اور نمائندے اپنی نشستیں چھوڑ کر باہر نکلنا شروع ہوگئے۔ لمحوں میں وہ عظیم الشان ہال سنسان اور خالی ہوگیا۔
نیتن یاہو اکیلا ڈائس پر پہنچا اور اس نے تقریر شروع کی لیکن سامعین موجود ہی نہیں تھے۔ تاریخ میں شاید پہلی بار کسی اسرائیلی وزیر اعظم کو ایسے ذلت آمیز لمحے کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس نے اپنی ناکام تقریر کے بعد خاموشی سے ہال چھوڑ دیا۔چند لمحے گزرے اور سیکرٹری جنرل نے اعلان کیا: ’’وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف!‘‘ اس اعلان کے ساتھ ہی وہی نمائندے جو احتجاجاً باہر جاچکے تھے، ایک ایک کرکے واپس آنے لگے۔ خالی کرسیاں تیزی سے بھرنے لگیں۔
لمحوں میں وہ ہال جو ابھی سنسان تھا کھچا کھچ بھر گیا۔ سب کی نظریں ایک ہی شخصیت پر مرکوز تھیں۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف باوقار انداز میں، ہلکی سی مسکراہٹ اور غیر متزلزل اعتماد کے ساتھ ہال میں داخل ہوئے۔ یہ صرف ایک سربراہ حکومت کا داخلہ نہیں تھا بلکہ امت مسلمہ کے ایک رہنما کا ظہور تھا۔ شہباز شریف اب صرف پاکستان کے وزیر اعظم نہیں رہے ، وہ خادمین حرمین شریفین کا اعزاز حاصل کرنیوالے رہنما بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے سے تین گنا بڑے دشمن بھارت کو نہ صرف عسکری میدان میں شکست فاش دی بلکہ سفارت کاری کے میدان میں اسے بھی بے نقاب کر دیا۔
چھ بھارتی جنگی جہازوں کا مار گرایا جانا دنیا کو یہ بتانے کیلئے کافی تھا کہ پاکستان ایک کمزور ملک........





















Toi Staff
Gideon Levy
Tarik Cyril Amar
Stefano Lusa
Mort Laitner
Sabine Sterk
Ellen Ginsberg Simon
Mark Travers Ph.d