اسد مفتی
موسم برسات کی ایک رات تھی چاندنی کبھی کبھی سیاہ بادلوں کی اوٹ سے جھانکنے لگتی تین بجے کا وقت ہوگا...لیکن ٹھہریے۔ پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہونگا کہ یہاں جو واقعات میں بتانے چلا ہوں یہ بیسویں صدی نہیں بلکہ 21ویں صدی میں ترقی یافتہ یورپ کے دل یعنی لندن میں ظہور پذیر ہوئے ہیں یا کم از کم برطانیہ کے لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور اگر یہ سب کچھ پڑھ کر آپ کے ماتھے پر بل پڑنے کے بجائے پیٹ میں بل پڑیں تو میں سمجھونگا کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب اور سرخرو ہوا۔ پچھلی بار جب میں لندن میں تھا تو ایک روز لندن میں واقع’’ٹاور آف لندن‘‘جانے کی ٹھانی ۔ دراصل انڈر گراؤنڈ میں سفر کرتے ہوئے میری نظر ٹیوب میں چسپاں ایک اشتہار پر پڑی جس میں ٹاور آف لندن دیکھنے کی دعوت دی گئی تھی،میں یہ دعوت نامہ قبول کرتے ہوئے وہاں جا پہنچا۔ اب آگے کا حال وہاں کےگائیڈ اور ایک میگزین کی زبانی سنیے...وہ کہہ رہا تھا...تین بجے کا وقت ہوگا کہ ٹاور آف لندن کا ایک محافظ اچانک خوف و دہشت سے کانپنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پتھروں کی بارش ہو رہی تھی اور پھر اسے ایک غیر مرئی ہیولا سا نظر آنے لگا، محافظ کی چیخ و پکار سن کر دوسرے لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے ٹارچوں کی روشنی میں اس پُر اسرار ہیولے کی تلاش شروع کر دی مگر وہ اندھیرے میں غائب ہو چکا تھا۔ محافظ نے سب لوگوں کو حلیہ بتایا کہ ابھی ابھی اس نے ایک بھوت دیکھا تھا۔ جس’’یادگار رات‘‘ کا یہ واقعہ ہے اس سے ٹھیک 406 برس قبل اسی ٹاور آف لندن میں انگلستان کی ملکہ جین گرے کا سر قلم کر دیا گیا تھا اور سر بریدہ ملکہ کا بھوت اس وقت سے لوگوں کو پریشان کرتا رہتا تھا مگر سرکاری ذرائع ان افواہوں کے بارے میں مہر بلب ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو 13 ایکڑ کا یہ قطعہ اراضی جس پر ٹاور آف لندن کی تاریخی عمارت قائم ہے دنیا بھرمیں’’بھوتوں کا........
© Daily Jang
